قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابٌ: اليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ فِي الأَمْوَالِ وَالحُدُودِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «شَاهِدَاكَ أَوْ يَمِينُهُ» وَقَالَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا [ص:178] سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، كَلَّمَنِي أَبُو الزِّنَادِ فِي شَهَادَةِ الشَّاهِدِ وَيَمِينِ المُدَّعِي، فَقُلْتُ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذْكِرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى)، قُلْتُ: «إِذَا كَانَ يُكْتَفَى بِشَهَادَةِ شَاهِدٍ وَيَمِينِ المُدَّعِي، فَمَا تَحْتَاجُ أَنْ تُذْكِرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى مَا كَانَ يَصْنَعُ بِذِكْرِ هَذِهِ الأُخْرَى»

2668. حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: كَتَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِاليَمِينِ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریمﷺنے ( مدعی سے ) فرمایا کہ تم اپنے دو گواہ پیش کرو ورنہ مدعیٰ علیہ کی قسم پر فیصلہ ہوگا ۔ قتیبہ نے بیان کیا ، ان سے سفیان نے بیان کیا ، ان سے ( کوفہ کے قاضی ) ابن شبرمہ نے بیان کیا کہ ( مدینہ کے قاضی ) ابوالزناد نے مجھ سے مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کے ( نافذ ہوجانے کے ) بارے میں گفتگو کی تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اور تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ کرلیا کرو پھر اگر دونوں مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، جن گواہوں سے کہ تم مطمئن ہو ، تاکہ اگر کوئی ایک ان دو میں سے بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے “ ۔ میں نے کہا کہ اگر مدعی کی قسم کے ساتھ صرف ایک گواہ کی گواہی کافی ہوتی تو پھر یہ فرمانے کی کیا ضرورت تھی کہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے ۔ دوسری عورت کے یاد دلانے سے فائدہ ہی کیا ہے ؟ تشریح:ابوالزناد جن کا اوپر ذکر ہوا مدینہ کے قاضی اور امام مالک کے استاد ہیں۔ اہل مدینہ ، امام شافعی ، احمد اور اہل حدیث سب اس کے قائل ہیں کہ اگر مدعی کے پاس ایک ہی گواہ ہو تو مدعی سے قسم لے کر ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کردیںگے۔ مدعی کی قسم دوسرے گواہ کے قائم مقام ہوجائے گی اور یہ امر حدیث صحیح سے ثابت ہے جس کو امام مسلم نے ابن عباس سے نکالا کہ آنحضرتﷺنے ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کیا اور اصحاب سنن نے اس کو ابوہریرہ اور جابر سے نکالا۔ ابن خزیمہ نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ ابن شبرمہ کوفہ کے قاضی تھے۔ اہل کوفہ جیسے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے جائز نہیں کہتے اور صحیح حدیث کے برخلاف آیت قرآن سے استدلال کرتے ہیں۔ حالانکہ آیت قرآن حدیث کے برخلاف نہیں ہوسکتی اور قرآن کا جاننے والا اور سمجھنے والا آنحضرتﷺ سے زیادہ کوئی نہ تھا۔ ( وحیدی ) آیت سے ابن شبرمہ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ قرآن مجید میں معاملہ کرنے والوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ معاملہ کرتے وقت دو مردوں یا ایک مردو و دو عورتوں کو گواہ کرلیں۔ دو عورتیں اس لیے رکھی ہیں کہ وہ ناقص العقل اور ناقص الحفظ ہوتی ہیں۔ ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے اور یہ ظاہر ہے کہ مدعی سے جو قسم لی جاتی ہے وہ اسی وقت جب نصاب شہادت کا پورا نہ ہو، اگر ایک مرد اور دو عورتیں یا دو مرد موجود ہوں تب مدعی سے قسم لینے کی ضرورت نہیں۔ امام شافعی نے فرمایا، یمین مع الشاہد کی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ حدیث میں بیان ہے اس امر کا جس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس کے پیغمبر کے حکم پر چلیں اور جس چیز سے آپ نے منع فرمایا ہے اس سے باز رہیں۔ میں ( مولانا وحیدالزماں مرحوم ) کہتا ہوں قرآن میں تو یہ ذکر ہے کہ اپنے پاؤں وضو میں دھوؤ، پھر حنفیہ موزوں پر مسح کیوں جائز کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں یہ ذکر ہے کہ اگر پانی نہ پاؤ تو تیمم کرو اور حنفیہ اس کے برخلاف ایک ضعیف حدیث کی رو سے نبےذ تمر سے وضو کیوں جائز سمجھتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ نبےذتمر کی ضعیف اور مجہول حدیث ضعیف قرار دے کر اس سے کتاب اللہ پرزیادتی جائز سمجھتے ہیں اور یمین مع الشاہد کی صحیح اور مشہور حدیث کو رد کرتے ہیں۔ وہل ہذا لا ظلم عظیم منہ۔ ( وحیدی ) حدیث ہذا کے ذیل میں مرحوم لکھتے ہیں یعنی جب مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں۔ بیہقی نے عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے مرفوعاً یوں نکالا البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر معلوم ہوا کہ مدعیٰ علیہ پر ہر حال میں قسم کھانا لازم ہوگا۔ جب مدعی کے پاس شہادت نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعی علیہ میں اختلاط اور ربط ہو یا نہ ہو۔ امام شافعی، اہل حدیث اور جمہور علماءکا یہی قول ہے، لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ مدعیٰ علیہ سے اسی وقت قسم لی جائے گی جب اس میں اور مدعی میں ارتباط اور معاملات ہوں۔ ورنہ ہر شخص شریف آدمیوں کو قسم کھلانے کے لیے جھوٹے دعوے ان پرکرے گا۔ ( وحیدی )

2668.

حضرت ابن ابی ملیکہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابن عباس  ؓ نے مجھے خط لکھا کہ نبی کریم ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قسم مدعی علیہ کے ذمے ہوگی۔