تشریح:
(1) حدیث میں ہے کہ گواہ پیش کرنے کی ذمہ داری مدعی پر ہے، اگر وہ گواہ پیش نہ کر سکے تو انکار کرنے والے سے قسم لے کر فیصلہ ہو گا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدعا علیہ پر ہر حال میں قسم اٹھانا ہی لازم ہے بشرطیکہ مدعی کے پاس گواہ نہ ہو، خواہ مدعی اور مدعا علیہ میں میل جول اور تعلق ہو یا نہ ہو۔ (2) امام مالک ؒ کہتے ہیں: مدعا علیہ سے اس وقت قسم لی جائے گی جب دونوں میں معاملات کا تبادلہ اور دیگر لین دین ہو ورنہ ہر شخص کسی شریف آدمی کو قسم اٹھانے پر مجبور کرتا رہے گا، خواہ اس پر جھوٹا دعویٰ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ دیوانی یا فوجداری دونوں قسم کے مقدمات میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی کیونکہ احادیث میں اس کے متعلق کوئی فرق نہیں ہے، انہیں اپنے عموم پر رکھا جائے گا۔ ہمارا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ واللہ أعلم