باب : اگر مریض اپنے سر سے کوئی صاف اشارہ کرے تو اس پر حکم دیا جائے گا؟
)
Sahi-Bukhari:
Wills and Testaments (Wasaayaa)
(Chapter: If a patient gives an evident clear sign by nodding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2766.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھرں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے یا فلاں شخص نے کیا ہے؟ح تیٰ کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (ہاں)، چنانچہ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ اس سے مسلسل باز پرس ہوتی رہی حتیٰ کہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیاگیا۔
تشریح:
اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن کی وضاحت یہ ہے کہ اشارے سے وصیت کا ثبوت ہو سکتا ہے کیونکہ اشارہ، کلام کے قائم مقام ہے بشرطیکہ اشارہ واضح ہو، اس سے مقصد میں کسی قسم کا شک پیدا نہ ہوتا ہو۔ اشارہ سر سے کیا جائے یا ہاتھ سے، اگر حاضرین مقصد سمجھ جاتے ہیں تو وصیت کے لیے کافی ہے۔ بعض حضرات کا موقف ہے کہ مریض کے اشارے سے کسی وصیت کا ثبوت نہیں ہو گا جب تک کلام نہ کرے، لیکن یہ موقف حدیث بالا کے پیش نظر محل نظر ہے۔ دوسرا مسئلہ قصاص کا ہے۔ وہ اشارے سے ثابت نہیں ہو گا جب تک کہ ملزم اپنی زبان سے اس کا اعتراف نہ کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا حکم اشارے سے گواہی کی بنا پر نہیں دیا بلکہ یہودی کے اقرار جرم کے بعد اس کا سر کچلا گیا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الدیات میں خود ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب: إذا أقر بالقتل مرة قتل به) ’’جب کوئی شخص ایک مرتبہ قتل کا اقرار کرے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے گا۔‘‘ وہاں دلیل کے طور پر یہی حدیث پیش کی گئی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2646
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2746
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2746
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2746
تمہید کتاب
وصايا، وصيت کی جمع ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی جانشین بنانے اور تاکید کرنے کے ہیں۔ اس کا اطلاق وصیت کرنے والے کے فعل پر بھی ہوتا ہے۔ اس صورت میں اس کے مصدری معنی مراد ہوتے ہیں۔ اور اس مال پر بھی بولا جاتا ہے جس کے متعلق وصیت کرنے والا وصیت کر جائے۔ اس صورت میں اسم مصدر ہو گا۔ شرعی طور پر وصیت اس خاص عہد کا نام ہے جس کی نسبت مرنے کے بعد کسی کام کی طرف کی گئی ہو، اور اس کا مدار حصول ثواب اور احسان پر ہوتا ہے۔ وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کے لیے وصیت کی جائے اس کو موصی لہ اور جس کو کسی کے لیے وصیت کی جائے اس کو وصی کہا جاتا ہے۔ وصی کی حیثیت ایک امین کی ہوتی ہے، اس لیے اسے موصی کے مال اور جائیداد میں اسی طرح تصرف کرنا چاہیے جس طرح وہ کہہ گیا ہو یا جس طرح وہ اپنے مال و جائیداد میں تصرف کرتا تھا۔ شریعت میں وصیت کو تین لغوی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے:(1) کسی کو اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑنے کی تاکید کرنا۔ اسے اخلاقی وصیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔(2) کسی کو اپنی زندگی ہی میں اپنے مرنے کے بعد کسی کام کی ذمہ داری سونپنا۔ اسے معاشرتی وصیت کہا جاتا ہے۔(3) کسی غیر وارث کو اپنی جائیداد سے 13 یا اس سے کم کی ہدایت و تاکید کر جانا۔ اسے مالی وصیت کا نام دیا جاتا ہے۔ مذکورہ عنوان کے تحت اس آخری قسم کی وصیت کا ذکر ہو گا۔اس مالی وصیت میں ایک کی طرف سے دوسرے کو انتقال ملکیت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک انتقال ملکیت کی دو قسمیں ہیں: ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری ملکیت اگر معاوضے سے ہے تو اسے خریدوفروخت کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر معاوضے کے بغیر ہے تو اس کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی میں معاوضے کے بغیر اپنی کوئی چیز دوسرے کی ملک میں دے دے۔ اسے ہبہ یا عطیہ کہا جاتا ہے۔ اگر مرنے کے بعد عمل میں آئے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ غیر اختیاری انتقال ملکیت وراثت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ دین اسلام میں وصیت کا ایک ضابطہ ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ ابتدائے اسلام میں وصیت فرض تھی کیونکہ دور جاہلیت میں وراثت ان مردوں کو ملتی تھی جو جنگ میں جانے کے قابل ہوتے۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں، یتیموں اور بیواؤں کو ترکے سے کچھ نہیں ملتا تھا۔ قرآن کریم نے حکم دیا کہ مرنے والا اپنے والدین، یتیموں، بیواؤں اور اپنے غریب رشتے داروں کو کچھ دینے کی وصیت ضرور کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ﴿١٨٠﴾) "تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچے اور وہ کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر والدین اور رشتے داروں کے حق میں وصیت کر جائے۔ یہ وصیت کرنا متقی لوگوں پر فرض ہے۔" (البقرۃ180:2) اس کے بعد وراثت کی تقسیم کا مفصل ضابطہ نازل ہوا تو وصیت کی فرضیت کو استحباب میں بدل دیا گیا۔٭ مرنے کے بعد تجہیز و تکفین کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد اگر کچھ بچ رہے تو وصیت پر عمل کیا جائے، بصورت دیگر وصیت نافذ العمل نہیں ہو گی۔٭ انسان کو اپنے مال یا جائیداد سے 13 حصے کی وصیت کرنے کا حق ہے۔ اس سے زیادہ وصیت کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے زیادہ کی وصیت کرتا ہے تو تہائی کے اندر ہی اس کی وصیت پوری کی جائے کیونکہ اس سے زیادہ کی وصیت کرنا دوسرے ورثاء کی حق تلفی ہے، اگر ورثاء اجازت دیں تو الگ بات ہے۔٭ جس کے حق میں وصیت کی گئی ہے وہ شرعی طور پر میت کے ترکے کا وارث نہ ہو کیونکہ اس نے ترکے سے حصہ لینا ہے، اسے دوہرا حصہ دینے کی ضرورت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔٭ وصیت کسی ناجائز کام کے لیے نہ ہو۔ اگر کسی حرام یا مکروہ کام کی وصیت ہے تو اسے پورا نہیں کیا جائے گا، مثلاً: مرنے والے نے وصیت کی کہ مجھے ریشمی کفن دیا جائے یا میری قبر کو پختہ بنایا جائے یا دھوم دھام سے چہلم کیا جائے تو اس صورت میں وصیت پر عمل نہیں ہو گا کیونکہ ان میں کوئی چیز بھی شریعت کی رو سے جائز نہیں۔٭ ایسی وصیت بھی کالعدم ہو گی جس کے ذریعے سے کسی وارث کی حق تلفی ہوتی ہو یا اسے نقصان ہوتا ہو۔ قرآن کریم میں وصیت اور قرض کی ادائیگی کا حکم بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وراثت کی تقسیم وصیت کے نفاذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی بشرطیکہ وہ قرض اور وصیت کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔" (النساء12:4)٭ اگر کوئی شخص غلط یا ناجائز وصیت کر جائے تو پسماندگان کا فرض ہے کہ وہ اس کی اصلاح کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ) "پس جو شخص کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی قسم کی جانبداری یا گناہ سے ڈرے تو وہ وارثان کے درمیان اصلاح کرا دے، اس طرح اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔" (البقرۃ182:2)٭ وصیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عاقل اور بالغ ہو۔ پورے ہوش و حواس سے وصیت کرے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ یا پاگل وصیت کرے گا تو وہ بے کار ہو گی۔ اسی طرح جب تک وصیت کرنے والا زندہ ہے اسے اپنی وصیت سے رجوع کر لینے کا حق باقی ہے۔ اگر کسی نے زبان سے رجوع نہیں کیا مگر اس نے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کیا جس سے ثابت ہو کہ اس نے رجوع کر لیا ہے تو بھی وصیت کالعدم ہو جائے گی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے وصیت کے سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ چونکہ وقف بھی وصیت کی ایک قسم ہے، اس لیے انہوں نے وقف کے آداب و شرائط کی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ساٹھ مرفوع احادیث اور بائیس آثار پیش کیے ہیں۔ مرفوع احادیث میں سے اٹھارہ معلق ہیں اور اڑتالیس متصل سند سے مروی ہیں۔ ان میں بیالیس مکرر اور اٹھارہ خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مصالح عباد پر گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس سے آپ کی وسعت علم اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کی گئی احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری گزارشات کو ضرور مدنظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت سے نوازے اور ہماری نجات کا ذریعہ بنائے۔ ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (آمين)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے کسی لڑکی کا سر دو پتھرں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لڑکی سے پوچھا گیا: تیرے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے یا فلاں شخص نے کیا ہے؟ح تیٰ کہ اس یہودی کا نام لیاگیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا (ہاں)، چنانچہ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ اس سے مسلسل باز پرس ہوتی رہی حتیٰ کہ اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے حکم پر اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیاگیا۔
حدیث حاشیہ:
اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن کی وضاحت یہ ہے کہ اشارے سے وصیت کا ثبوت ہو سکتا ہے کیونکہ اشارہ، کلام کے قائم مقام ہے بشرطیکہ اشارہ واضح ہو، اس سے مقصد میں کسی قسم کا شک پیدا نہ ہوتا ہو۔ اشارہ سر سے کیا جائے یا ہاتھ سے، اگر حاضرین مقصد سمجھ جاتے ہیں تو وصیت کے لیے کافی ہے۔ بعض حضرات کا موقف ہے کہ مریض کے اشارے سے کسی وصیت کا ثبوت نہیں ہو گا جب تک کلام نہ کرے، لیکن یہ موقف حدیث بالا کے پیش نظر محل نظر ہے۔ دوسرا مسئلہ قصاص کا ہے۔ وہ اشارے سے ثابت نہیں ہو گا جب تک کہ ملزم اپنی زبان سے اس کا اعتراف نہ کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قصاص کا حکم اشارے سے گواہی کی بنا پر نہیں دیا بلکہ یہودی کے اقرار جرم کے بعد اس کا سر کچلا گیا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الدیات میں خود ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب: إذا أقر بالقتل مرة قتل به) ’’جب کوئی شخص ایک مرتبہ قتل کا اقرار کرے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کیا جائے گا۔‘‘ وہاں دلیل کے طور پر یہی حدیث پیش کی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسان بن ابی عباد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا قتادہ سے اور ان سے انس ؓ نے کہ ایک یہودی نے ایک (انصاری) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے کیا؟ فلاں نے کیا؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا (جس نے اس کا سر کچل دیا تھا) تو لڑکی نے سرکے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کرلیا اور نبی کریم ﷺ کے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سر کچل دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
آپ ﷺ نے اس لڑکی کا بیان جو سر کے اشارے سے تھا‘ شہادت میں قبول کیا اور یہودی کی گرفتاری کا حکم دیا گو قصاص کا حکم صرف شہادت کی بنا پر نہیں دیا گیا بلکہ یہودی کے اقبال جرم پر لہذا ایسے مظلوم کے سر کے اشارے سے بھی اہل قانون نے موت کے وقت کی شہادت کو معتبر قراردیا ہے کیونکہ آدمی مرتے وقت اکثر سچ ہی کہتا ہے اور جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): A Jew crushed the head of a girl between two stones. She was asked, "Who has done so to you, so-and-so? So-and-so?" Till the name of the Jew was mentioned, whereupon she nodded (in agreement). So the Jew was brought and was questioned till he confessed. The Prophet (ﷺ) then ordered that his head be crushed with stones.