تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے:رسول اللہ ﷺ اس رات آرام سے سوئے حتی کہ ہم نے آپ کےخراٹوں کی آواز سنی۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث 7231) 2۔ ظاہر روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ آنے سے پہلے کا ہے، حالانکہ اس وقت آپ کے پاس عائشہ صدیقہ ؓ نہیں تھیں اور نہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیداری مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد ایک رات پیش آئی جیساکہ ایک روایت میں ہے :جب آپ بیدار ہوئے توحضرت عائشہ ؓ آپ کے پاس تھیں۔ (مسند أحمد 141/6) ترمذی ؒ کی روایت میں ہے :صحابہ کرام ؓ آپ کا پہرہ دیتے تھے،جب یہ آیت اتری:﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ ’’اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ (المآئدة: 67/5) تو آپ نے پہرہ ختم کرادیا۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث 3046) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن سے ہروقت محتاط رہنا چاہیے، نیز لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سربراہ کی حفاظت کریں تا کہ کوئی اچانک اسے اذیت نہ دے سکیں۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اسباب کی فراہمی توکل کے منافی نہیں کیونکہ توکل دل کا فعل ہے اور اسباب و ذرائع کا استعمال اعضاء وجوارح سے متعلق ہے۔ (فتح الباري: 101/6)