تشریح:
1۔ اس حدیث میں اگرچہ سفر کا ذکرنہیں ہے بلکہ یہ کلام مطلق ہے جو حالت سفر کو بطریق اولیٰ شامل ہے اور سفر جہاد کے مسافر توخصوصیت سے یہاں مراد ہیں۔ اگر کوئی بھائی اس مقدس سفر میں اٹک رہا ہے یا اس پر بوجھ زیادہ ہے تو ایسے حالات میں اس کی مددکرنا بہت بڑا عظیم کام ہے۔ ویسےتو ہر مسافر کی مدد بہت بڑا کار خیر ہے لیکن سفر جہاد میں یہ فضیلت دوچندہوجاتی ہے۔ 2۔ جب کسی کی سواری پر سہارا دے کر بٹھانا فضیلت کا باعث ہے تو اپنی سواری پر کسی تھکے ماندے کو بٹھانا تو بہت ہی اجروثواب کا باعث ہے۔ (فتح الباري: 104/6)