تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے بیان کردہ عنوان بڑے خاموش اور ٹھوس ہوتے ہیں، ان سے امام بخاری ؒ کی مراد کو سمجھنا آسان نہیں۔ انھوں نے مذکورہ بالا عنوان میں کوئی حکم بیان نہیں کیا۔ اس کی تعیین پیش کردہ حدیث پر غور و فکر کرنے کے بعد ہو گی۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب مرد اپنی عورت کے دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر عمل شروع کرے تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس حدیث میں انزال کا ذکر نہیں، بلکہ کوشش کرنے کا ہے۔ گویا محض بیٹھنے سے بھی غسل واجب نہیں ہو گا، بلکہ اس کا انحصار جہد (کوشش) پر ہے جو دخول سے کنایہ ہے۔ دخول کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ اس وضاحت سے امام بخاری ؒ کے عنوان کی تعیین ہو جاتی ہے، کیونکہ مرد کے ختان کا عورت کے ختان سے التقاء غیوبت حشفہ کے بغیر ممکن ہی نہیں، اس لیے کہ ختان اس مقام کا نام ہے، جہاں کٹاؤ ہوتا ہے اور عورت کے ختان کا مقام ذرا نیچے ہوتا ہے۔ عورت کے ختان کو خفاض کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں، عرب میں عورتوں کا ختنہ کیا جاتا ہے اور شادی سے پہلے کم ازکم دو تین مرتبہ ختنہ کرنا پڑتا ہے، اگرایسا نہ کیا جائے تو اس مقام پر محض کپڑے کی رگڑ سے شہوانی جذبات کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ افریقہ کے بعض دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں ختنہ کے بجائے اس مقام پر ٹانکے لگا دیے جاتے ہیں۔ تاکہ شادی ہونے تک عورت کی عزت و ناموس محفوظ رہے، اسے’’عفت اجباری‘‘ کانام دیا جاتا ہے، شادی کے وقت ٹانکے کھول کر عورت کو خاوند کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ اس مسئلے کی مزید وضاحت فرماتی ہیں۔ ان کی بیان کردہ روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب مرد کا ختنہ عورت کے ختنے کے مقام میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:216) ترمذی کی روایت میں ہے کہ میں نے اور رسول اللہ ﷺ نے وظیفہ زوجیت ادا کیا، پھر ہم دونوں نے غسل کیا۔ (جامع الترمذي، الطهارة، حدیث:108) حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ غسل جنابت میں مہاجرین اور انصارکے درمیان اختلاف ہوا تو میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس گیا اور عرض کیا: اماں جان!میں ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے حیا آتی ہے، انھوں نے فرمایا:پوچھو! میں تیری حقیقی ماں کی طرح ہوں، میں نے دریافت کیا کہ غسل کب واجب ہوتا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا دیا کہ جب خاوند اپنی بیوی کے چاروں اعضاء کے درمیان بیٹھ جائے اور مرد کا ختنہ عورت کے ختنے سے لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:785۔ (349)) رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اس نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ !ایک آدمی اپنی بیوی سے ہمبسترہوتا ہے، لیکن اسے انزال نہیں ہوتا کیا، ایسی حالت میں بیوی خاوند کو غسل کرنا ہو گا؟ حضرت عائشہ ؓ بھی آپ کے پاس بیٹھی تھیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’میں اور یہ دونوں ایسا کرتے ہیں پھر غسل بھی کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:786۔ (350)) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غسل جنابت کے لیے انزال شرط نہیں، بلکہ دخول ہی کافی ہے۔ اولاً یہی امام بخاری ؒ کا موقف ہے، اس کی مزید وضاحت ہم آئندہ باب میں کریں گے۔
2۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ بعض اوقات کسی حدیث کے الفاظ کو عنوان میں رکھ دیتے ہیں، چونکہ وہ ان کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی، اس کی طرف اس انداز سے اشارہ کر دیتے ہیں۔ مذکورہ عنوان کے الفاظ امام بیہقی نے بیان کیے ہیں کہ جب خاوند بیوی کے ختنے آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی ؒ نے بھی حضرت عائشہ ؓ سے ان الفاظ کو بیان کیا ہے، لیکن ان کی بیان کردہ روایت میں ایک راوی علی بن زید ضعیف ہے۔ البتہ ابن ماجہ میں بیان شدہ حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔ (فتح الباري:513/1)
3۔ عمرو بن مرزوق نے شعبہ سے بیان کرنے میں ہشام کی متابعت کی ہے، جسے فوائد عثمان بن احمد السماک میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ پھر موسیٰ کی تعلیق کو اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ قتادہ گو ثقہ راوی ہیں مگر ان پر تدلیس کا الزام ہے اور مذکورہ روایت کو انھوں نے "عن" سے بیان کیا ہے اور مدلس راوی کا کسی روایت کو عن سے بیان کرنا قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے امام بخاری ؒ کو اس متابعت میں تحدیث کی تصریح نقل کرنی پڑی۔ (فتح الباري:513/1)