تشریح:
مسئلہ یہ ہے کہ اگر امام کسی کو ایسی جگہ پر تعینات کرتا ہے جو انتہائی پریشان کن اور خطرناک ہے اور وہاں ڈیوٹی دینا اس کی طاقت سے باہر ہے تو کیا ایسے موقع پر حکم امام کی تعمیل ضروری ہے یا نہیں؟ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے اس سلسلے میں صاف جواب دینے میں توقف کیا کیونکہ اگر کہاجائے کہ ایسے حالات میں بھی امیر کی اطاعت فرض ہے تو یہ خلاف حق فتویٰ ہوگا اوراگر امیر کی نافرمانی اور حکم نہ ماننے کا فتویٰ دیا جائےتو ہرآدمی امیر کے حکم کی مخالفت پر جری ہوجائے گا۔ اس طرح فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے، اس لیے ایسے معاملات میں توقف ہی بہتر ہے۔ لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ نے توقف کے بعد اطاعت امیر کے وجوب کا فتویٰ دیا بشرط یہ کہ وہ حکم تقویٰ کے موافق ہو۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب کوئی مشکل امرآجائے تو وہاں توقف کرنا چاہیے تاکہ فساد برپا نہ ہو۔ واضح رہے کہ توقف ایسے امور میں ہوگا جوانتظامی معاملات سے متعلق ہوں لیکن شرعی معاملات میں تعمیل ضروری ہے۔ اما م کو بھی چاہیے کہ وہ وقت کی نزاکت اورزمینی حقائق کو سامنے رکھے، خواہ مخواہ کسی کو فتنے میں مبتلا نہ کرے، لوگوں کی طاقت اور ہمت کے مطابق ان سے کام لے۔ واللہ أعلم۔