تشریح:
1۔امام بخاری ؒنے عنوان کو مبہم رکھا ہے۔ اس کے متعلق جواز یا عدم جواز کی صراحت نہیں کی۔ دراصل رات کے وقت سفر کرنے کی دو حالتیں ممکن ہیں۔ ایک صورت تو امن و سلامتی کی ہے۔ اس سفر میں غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ دشمن کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاسکے گا ۔تو اس حالت میں تنہا سفر کرنا جائز ہے جیسا کہ حضرت زبیر ؓ کی حدیث میں ہے۔ دوسری حالت خوف و ہراس کی ہے۔ اس صورت میں تنہا سفر کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ 2۔شارح بخاری ابن منیر ؒ فرماتے ہیں جنگ کی مصلحت کے لیے تنہا سفر کرنا جائز ہے جیسا کہ دشمن کے حالات معلوم کرنا اور جاسوسی کرنا اور جنگی انتظامات کے لیے جانا ایسے حالات میں رات کے وقت تنہا سفر کرنا جائز ہے ان کے علاوہ تنہا سفر کرنا خرابی سے خالی نہیں ۔ (فتح الباري:167/6)