تشریح:
1۔ حضرت جبیر بن مطعم ؓ قریش کے سرداروں میں سے تھے وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے۔ غزوہ بدر میں جو مشرکین قید ہوئے تھے وہ انھیں چھڑانے کے لیے مدینہ طیبہ آئے۔اس وقت وہ مسلمان نہیں تھے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے قیدیوں کی رہائی کے متعلق گفتگو کی توآپ نے فرمایا:’’اگر تمھارا باپ آپ زندہ ہوتا اور ان پلید لوگوں کی سفارش کرنے آتا تو میں ضرور قبول کر لیتا۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4024) اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد کا رسول اللھ ﷺ پر ایک احسان تھا کہ جب آپ طائف سے واپس ہوئے تو مطعم بن عدی نے آپ کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا۔ حضرت جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز مغرب میں سورہ طور کی یہ آیت تلاوت فرمائی:﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴾’’کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے یا وہ خود اپنے خالق ہیں۔‘‘ (الطور:52۔35) تو میرا دل مارے خوف کے ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ (صحیح البخاري، تفسیر، حدیث:4854) ایک روایت میں ہے اسی وقت ایمان میرے اندر جا گزیں ہو گیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4023)