تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں یہ ثابت کیا ہے کہ حائضہ عورت انھی کپڑوں میں نماز پڑھ سکتی ہے جن میں اس نے ایام حیض گزارے ہوں۔ اور اس مسئلے کی ضروریات اس لیے محسوس ہوئی کہ قبل از اسلام عورتیں ایام حیض میں استعمال شدہ کپڑوں کو طہر کے وقت تبدیل کرناضروری خیال کرتی تھیں۔ لیکن شریعت نے بتلایا کہ جو کپڑا ایام حیض میں بدن پر تھا اگر وہ خون سے آلودہ نہیں ہوا تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسی میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اگر کہیں خون لگا ہوتو اسی آلودہ حصے کو دھو لیا جائے، پھر اس میں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ناخنوں سے رگڑنے کے بعد اسے پانی سے دھو لیتی تھیں۔ ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے اختصار کے پیش نظر دھونے کا ذکرحدیث میں نہیں ہے ۔ کپڑے کو دھونے کی وضاحت حدیث (308) میں گزرچکی ہے کہ جب ہم میں سے کسی کو حیض آتا تو طہر کے وقت اپنے کپڑے سے خون کو کھرچ ڈالتی اور سے دھودیتی، پھر باقی ماندہ کپڑے پر پانی بہا کر اس میں نماز پڑھ لیتیں۔ 2۔ بعض حضرات کے نزدیک پانی کے علاوہ ہر مائع چیز سے ازالہ نجاست ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، کیونکہ اس میں پانی کے بغیر ازالہ نجاست کی صراحت ہے، لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ دوسری احادیث میں وضاحت ہے کہ صرف ناخن سے رگڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا جاتا، بلکہ اسے دھویا جاتا، پھر اس میں نماز ادا کی جاتی تھوک کا استعمال اس لیے ہوتا تھا کہ لعاب دہن میں شوریت (نمکینی) ہوتی ہے، اس کی وجہ سے خون کا دھبہ آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔ گویا لعاب دہن کا استعمال کلی طور پر ازالہ نجاست کے لیے نہیں، بلکہ بلکہ ازالہ نجاست میں سہولت پیدا کرنے کے لیے تھا۔ 3۔ دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے پاس ایام حیض اور حالت طہارت کے لیے الگ الگ لباس ہوتا تھا۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ ؒ سے مروی حدیث میں ہے۔ جبکہ اس روایت میں ہے کہ ہم ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے پاس حیض وطہر کے لیے ایک ہی لباس ہوتا تھا۔ بظاہران روایات میں تعارض ہے۔ ان میں تطبیق بایں طور ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان اسلام کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ تنگی کا زمانہ تھا،پھر جب فتوحات کا دورآیا اور اللہ تعالیٰ نے فراخی عطا فرمائی توحیض وطہر کا لباس الگ الگ کرلیا گیا، نیز حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ایام حیض میں الگ لباس کے متعلق نص نہیں، کیونکہ ممکن ہے حیض کے لباس سے ان کی مراد وہ کرسف وغیرہ ہو جسے حیض سے احتیاط کے پیش نظرعورتیں استعمال کرتی ہیں، مستقل لباس مراد نہ ہو۔ اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کا بیان اس بارے میں نص نہیں کہ ایک ہی لباس میں طہر اور حیض کے ایام گزرتے تھے۔ ان کے بیان کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معمولی لباس کے علاوہ اور کوئی مخصوص قسم کا کپڑا ہمارے پاس نہیں ہوتا تھا جس کی ضرورت داخل فرض کا خون روکنے کے لیے پڑتی تھی۔ الغرض حضرت ام سلمہ ؓ اورحضرت عائشہ ؓ کے بیانات میں کوئی تعارض نہیں، بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ 4۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حائضہ کا پسینہ پاک ہے، کیونکہ اگربحالت حیض عورت کا پسینہ ناپاک ہوتا تو حیض کے ختم ہونے کے بعد بہرصورت اس کے بدن کا کپڑا ناپاک قراردیاجاتا، جسے دھونا ضروری ہوتا، خواہ اس پر خون کا دھبا نہ ہو، حالانکہ حدیث میں ہے کہ اگرکپڑے پر خون کا دھبا نہیں ہے تو اسے دھونے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس لیے معلوم ہوا کہ جنبی آدمی کی طرح حائضہ عورت کا پسینہ بھی پاک ہے۔ ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے یہی مقصد ہو۔