تشریح:
1۔ جن قراء کو ان مشرکین نے شہید کیا وہ بڑے عالم اور قرآن کے عامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس لیے غمناک ہوئے کہ یہ اگریہ زندہ رہتے تو ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے:(مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَمِ) یعنی ایک عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے۔ 2۔ اس حدیث کے مطابق مشرکین کا آپ سے عہد وپیمان تھا، جب انھوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے ظلم اور بربریت کے ساتھ سترقرائے کرام کو شہید کردیا تو آپ نے ان کے خلاف بددعا کی اور پورا ایک مہینہ فرض نمازوں میں قنوت کرتے رہے۔ 3۔ قنوت کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد اورقنوت وتررکوع سے پہلے ہے جیسا کہ سنن نسائی میں اس کی صراحت ہے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث:1071 و کتاب قیام اللیل، حدیث:1700) اس مسئلے کے متعلق تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔