تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس عنوان کا مقصد بایں الفاظ متعین فرمایا ہے کہ آیا حائضہ حج یا عمرے کا احرام باندھ سکتی ہے یا نہیں ؟اور عنوان میں لفظ کیف سے کوئی خاص کیفیت مراد نہیں، بلکہ موجودہ صورتحال کو استفہام کے انداز میں بیان کرنے کے لیے کیف کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس تقریر سے ان لوگوں کا اعتراض ختم ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ حدیث اور عنوان میں مطابقت نہیں، کیونکہ حدیث میں کسی خاص کیفیت کا تذکرہ نہیں ہے جس سے عنوان ثابت ہوتا ہو۔ (فتح الباري:543/1) 2۔ اس کے بعد حافظ ابن حجر نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ حائضہ عورت دوران حیض میں احرام باندھ سکتی ہے، لیکن لغوی لحاظ سے لفظ (كَيْفَ) حالت سے متعلق سوال کرنے کے لیے آتا ہے، اس لیے عنوان کا مطلب یہ ہے کہ حائضہ کس حالت و کیفیت کے ساتھ احرام باندھے؟ یعنی غسل کر کے احرام باندھے یا غسل کے بغیر ہی احرام باندھ لے؟ روایت سے ثابت ہوا کہ حائضہ غسل کر کے احرام باندھے۔ جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، الحج, حدیث:2937 (1213)) ویسے بھی سر کھولنا اور کنگھی کرنا غسل سے کنایہ ہیں۔ اس عنوان کی ضرورت اس لیے ہے کہ حیض کی حالت میں غسل کرنے سے طہارت حاصل نہیں ہوگی اس لیے حائضہ کا غسل کرنا چہ معنی وارد؟روایت سے پتہ چلا کہ حائضہ کا غسل کرنا فائدے سے خالی نہیں، کیونکہ غسل کرنا احرام کی سنت ہے کم ازکم وہ تو حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے حائضہ کو چاہیے کہ حالت حیض میں اس سنت کو ترک نہ کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ احرام کےوقت غسل کرنا نظافت و صفائی کے لیے ہے، خاص طور پر حائضہ عورت کے لیے بطور طہارت نہیں، کیونکہ خون حیض کے انقطاع سے پہلے طہارت کا حصول ممکن ہی نہیں لہٰذا حائضہ کو چاہیے کہ وہ احرام سے پہلے غسل نظافت کرے۔