تشریح:
1۔ یہ عنوان بھی مرجیہ کی تردید اور ایمان کی کمی بیشی کے لیے ہے کیونکہ آیت کریمہ میں کفرو شرک کو ظلم کا ایک فرد بتایا گیا ہے۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ظلم کے مختلف مراتب ہیں کوئی ادنیٰ اور کوئی عظیم ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ شرک وکفر میں بھی مراتب تسلیم کرنا پڑیں گے کیونکہ وہ ظلم ہی کے افراد ہیں چونکہ کفر ضد ایمان ہے۔ اس لیے اس کے مراتب خود بخود ثابت ہوگئے۔ کیونکہ اشیاء اپنی ضد سے واضح ہوتی ہیں۔ یہی مقصود عنوان ہے۔
2۔ آیت کریمہ میں لفظ ظلم عام ہے جو کفرو شرک اور معاصی کو شامل ہے۔ اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اشکال پیدا ہوا جو لفظ ظلم سے متعلق ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا تعلق لفظ ﴿لَمْ يَلْبِسُوا﴾ سے ہے (لَبْس) کے لغوی معنی اختلاط ہیں اور یہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں دونوں چیزوں کا ظرف ایک ہو۔ اب ظلم سے مراد اعمال جوارح یعنی معاصی نہیں ہو سکتے کیونکہ معاصی کا محل جوارح ہیں اور ایمان کا محل دل ہے ہاں کفرو شرک اور ایمان کا محل ایک ہے لہٰذا ایمان سے اسی ظلم کا اختلاط ہوگا۔ جو ایمان کے ظرف میں پہنچ سکتا ہو اور کفروشرک کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔
3۔ اس حدیث سے دور حاضر کے معتزلہ (منکرین حدیث) کی بھی تردید ہوتی ہے جو قرآن فہمی کے لیے صرف عربی لغت کو کافی سمجھتے ہیں اور صاحب قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو اہمیت نہیں دیتے اگر ان کا یہ دعوی درست ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن مجید کے سمجھنے میں کسی قسم کی الجھن کا شکار نہ ہوتے لہٰذا قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے صاحب قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و معمولات کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یہی وہ بیان ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ﴾’’پھر اس قرآن کی وضاحت ہمارے ذمے ہے۔‘‘ ( القیامة: 7519)