قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِهِ: (وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ نُشُرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ))

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: {قَاصِفًا} [الإسراء: 69]: «تَقْصِفُ كُلَّ شَيْءٍ» {لَوَاقِحَ} [الحجر: 22]: «مَلاَقِحَ مُلْقِحَةً»، {إِعْصَارٌ} [البقرة: 266]: «رِيحٌ عَاصِفٌ تَهُبُّ مِنَ الأَرْضِ إِلَى السَّمَاءِ كَعَمُودٍ فِيهِ نَارٌ»، {صِرٌّ} [آل عمران: 117]: «بَرْدٌ»، (نُشُرًا): «مُتَفَرِّقَةً»

3206. حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا رَأَى مَخِيلَةً فِي السَّمَاءِ، أَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، وَدَخَلَ وَخَرَجَ، وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، فَإِذَا أَمْطَرَتِ السَّمَاءُ سُرِّيَ عَنْهُ، فَعَرَّفَتْهُ عَائِشَةُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَدْرِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ قَوْمٌ»: {فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ} [الأحقاف: 24] الآيَةَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

سورہ بنی اسرائیل میں قاصفاً کا جو لفظ ہے اس کے معنی سخت ہوا جو ہر چیز کو روند ڈالے ۔ سورہ حج میں جو لفظ لواقح ہے اس کے معنی ملاقح جو ملقحہ کی جمع ہے یعنی حاملہ کر دینے والی ۔ سورہ بقرہ میں جو اعصار کا لفظ ہے تو اعصار بگولے کو کہتے ہیں جو زمین سے آسمان تک ایک ستون کی طرح ہے ۔ اس کے معنی پالا ( سردی ) نشر کے معنی جدا جدا ۔صحیح یہ ہے کہ لواقح لاقحۃ کی جمع یعنی وہ ہوائیں جو پانی کو اٹھائے چلتی ہیں۔ آیت کریمہ لا تسجدو للشمس ولا للقمر الاے ( الاعراف: 57 ) میں لفظ بشرا کی جگہ نشرا پڑھا ہے۔ یعنی ہر طرف جدا چلنے والی ہوائیں۔ لفظ لواقح لاقحۃ کی جمع ہے یعنی وہ ہوائیں جو پانی کو اٹھائے ہوئے چلتی ہیں گویا حملہ ہیں۔ مولانا جمال الدین افعانی کہتے ہیں کہ حاملہ کرنے والی ہوا کا معنی اصول نباتات کی رو سے ٹھیک ہے کیو ںکہ علم نباتات ہوا ہے کہ ہوا نردرخت کا مادہ اڑا کر مادہ درخت پر لے جاتی ہے۔ اس وجہ سے درخت خوب پھلتا پھولتا ہے گویا ہوا درختوں کو حاملہ کرتی ہے۔ تحقیقات جدیدہ سے بھی یہی مشاہدہ ہواہے۔

3206.

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب آسمان پر بادل دیکھتے تو آپ کبھی آگے آتے اور کبھی پیچھے جاتے، کبھی گھر کے اندر داخل ہوتے اورکبھی باہر تشریف لے جاتے۔ اور آپ کے چہرہ انور کا رنگ فق ہوجاتا لیکن جب بارش ہونے لگتی تو پھر یہ کیفیت باقی نہ رہتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے اس کیفیت کو بھانپا (تو آپ سے عرض کیا) آپ نے فرمایا: ’’کیا پتہ شاید یہ بادل اس طرح کا ہو جس کے متعلق قوم (عاد) نے کہا تھا:‘‘ پھر جب انھوں نے بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا (تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ یہ وہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچارہے تھے، یعنی ایسی آندھی جس میں دردناک عذاب تھا)۔‘‘