تشریح:
1۔ یہ واقعہ نبوت کے دسویں سال پیش آیا جب حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ اور جناب ابوطالب فوت ہوچکے تھے اور کفار کی ایذا رسانی میں شدت آگئی تھی۔ آپ اس امید پر طائف تشریف لے گئے کہ وہاں کچھ سہارا ملے گا۔ آپ وہاں قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس گئے اور اپنی قوم کے مظالم کی ان سے شکایت کی تو انھوں نے آپ کی مدد کرنے کی بجائے آپ سے سخت رویہ اختیار کیا جس سے آپ کو شدید دھچکا لگا۔ آپ وہاں دس روز ٹھہرے۔ 2۔عقبہ، منی کے میدان میں ایک وادی کا نام ہے۔ اسی طرح قرن ثعالب بھی مکہ سے دوسراحل پر واقع ہے۔ طائف میں سرداروں نے آپ سے بدتمیزی کی اور اوباش لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگادیا۔ انھوں نے آپ کو پتھر مارے۔ ایک پتھر آپ کی ایڑی پر لگا جس سے آپ زخمی ہوگئے۔ اس قدر ستائے جانے کے باوجود آپ نے ان کے لیے دعائے خیر کی جو اللہ تعالیٰ کے ہوں قبول ہوئی۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے فرشتوں کا وجود اور ان کی کارکردگی ثابت کی ہے۔