تشریح:
اس آیت سے پہلے سورہ انعام کی آیت:74 سے حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ ’’جب آپ نے ستاروں، چاند اور سورج کی بے بسی بیان کردی کہ یہ سب چیزیں غروب وطلوع ہوتی ہیں، لہذا عبادت کے لائق نہیں، پھر فرمایا:اور جنھیں تم اللہ کے شریک بناتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے، میں ان سے کیسے ڈروں جس کے لیے اللہ نے کوئی دلیل بھی نال نہیں کی؟ پھر ہم دونوں فریقوں میں سے امن کاحق دار کون ہے۔اگرتم جانتے ہوتو جواب دو؟"(الانعام 6/81)اس کے بعد فرمایا:"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن وسلامتی ہے۔"(الأنعام:82/6) ان آیات کے بعداللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’یہی وہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی قوم کے خلاف دی تھی۔‘‘ (الأنعام:83/6) مستدرک حاکم میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حدیث میں ذکر کردہ آیت کو پڑھا اس کے بعد فرمایا: یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صحابہ کرام ؓ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ (المستدرك للحاکم 316/2) اس تفصیل سے پتہ چلا کہ مذکورہ حدیث عنوان سے غیر متعلق نہیں جیساکہ بعض شارحین نے تاثر دیاہے۔