تشریح:
1۔ اس حدیث کا آغاز کمربند باندھنے سے ہوا ہے۔ خدمت کرتے وقت خدام اپنی کمر کو جس کپڑے سے باندھتے ہیں عربی زبان میں اسے مِنطق کہاجاتا ہے۔ عورتیں گھروں میں کمر بند اس لیے باندھتی ہیں تاکہ گھر میں جلدی چل پھر کر کام کاج آسانی سے کیا جائے۔ 2۔ سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کمر بند کیوں باندھا؟ شارحین نے اس کے دومقاصد بیان کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:الف۔ یہ کمر بند باندھ کر حضرت سارہ کو خوش کرنا مقصود تھا، اس طرح انھوں نے اپنی حالت خادمہ جیسی بنائی تاکہ حضرت سارہ پر یہ ظاہر کیا جائے کہ وہ ان کی خدمت گزارہے، سوتن کی طرح نہیں۔ ب۔ حضرت سارہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ایک شاہ مصر کی بیٹی تھی اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کےحرم میں داخل کردیاتھا۔ حرم میں آنے کے بعد انھیں حمل ٹھہرگیا اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کے شک میں بہت اضافہ ہوگیا۔ اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے لخت جگر کو لے کر حضرت ابراہیم ؑ کے ہمراہ اپنے گھر سے نکلیں اور کمر بند باندھا تاکہ اس کے ذریعے سے ان کے قدموں کے نشانات مٹتے رہیں۔ اس طرح حضرت سارہ کو ان کا سراغ نہ مل سکا۔ اورحضرت ابراہیم ؑ نے انھیں مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لابسایا جہاں اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کروایا۔ 3۔ کچھ لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ ہیں کیونکہ اس حدیث کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو شیرخوارگی کی حالت میں چھوڑ گئے تھے، پھر جب دیکھنے آئے تو وہ شادی شدہ تھے، اگرحضرت اسماعیل ؑ کوذبح کرنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث میں اس کا ذکر ضرورہوتا کہ حضرت ابراہیم ؑ ان کی شادی سے پہلے بھی آیا کرتے تھے لیکن ہمارے نزدیک یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ قطعاً مذکور نہیں کہ زمانہ رضاعت سے لے کر شادی کے زمانے تک حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے نہیں آئے بلکہ آپ کا بار بارآنا ثابت ہے جیسا کہ ابوجہم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ہر مہینے براق پر سوار ہوکر صبح کے وقت مکہ مکرمہ آتے، پھر واپس چلے جاتے اور قیلولہ اپنے ملک شام میں جا کر کرتے تھے، نیز جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی تو اس کے ساتھ صفت حلیم کا ذکرکیا اور اس کا تعلق قربانی سے ہے کیونکہ اس موقع پر ان کے بردبار ہونے کی طرف لطیف اشارہ ہے لیکن جب سیدنا اسحاق ؑ کی خوش خبری دی گئی تو صفت علیم ذکر کی گئی جس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے علاوہ سورہ صافات میں پہلے سیدنا ابراہیم ؑ کے اس بیٹے کاذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے۔ اس کے بعد سیدنا اسحاق ؑ کاذکر ہے۔ یہ ذکر واقعہ قربانی کے بعد ہے۔ اس کے بعد بھی پتہ چلتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ نہیں بلکہ حضرت اسماعیل ؑ ہیں، نیز اسحاق ؑ کی خوشخبری کے وقت ان کے بیٹے یعقوب ؑ کی خوش خبری کا بھی ذکر ہے، یعنی وہ جوان ہوں گے اور آگے ان کی اولاد ہوگی تو پھر انھیں ذبح کرنے کا حکم دینے کا کیامطلب؟ اس لیے ذبيح سیدنا اسماعیل ؑ ہی تھے۔