قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابٌ: یَزِفُون : النَّسَلانٌ فِی المَشئیِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3364. وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، وَكَثِيرِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ المُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ، يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الآخَرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَوَّلَ مَا اتَّخَذَ النِّسَاءُ المِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ، اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لِتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَى سَارَةَ، ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُرْضِعُهُ، حَتَّى وَضَعَهُمَا عِنْدَ البَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ، فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَى المَسْجِدِ، وَلَيْسَ بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ، وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ، فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ، وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ، وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ، ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا، فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَقَالَتْ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الوَادِي، الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ؟ فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا، وَجَعَلَ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ لَهُ: آللَّهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَتْ: إِذَنْ لاَ يُضَيِّعُنَا، ثُمَّ رَجَعَتْ، فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لاَ يَرَوْنَهُ، اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ البَيْتَ، ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلاَءِ الكَلِمَاتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: رَبِّ {إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ المُحَرَّمِ} [إبراهيم: 37]- حَتَّى بَلَغَ - {يَشْكُرُونَ} [إبراهيم: 37] وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِكَ المَاءِ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَاءِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا، وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّى، أَوْ قَالَ يَتَلَبَّطُ، فَانْطَلَقَتْ كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَتِ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الأَرْضِ يَلِيهَا، فَقَامَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتِ الوَادِيَ تَنْظُرُ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا، فَهَبَطَتْ مِنَ الصَّفَا حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الوَادِيَ رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا، ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الإِنْسَانِ المَجْهُودِ حَتَّى جَاوَزَتِ الوَادِيَ، ثُمَّ أَتَتِ المَرْوَةَ فَقَامَتْ عَلَيْهَا وَنَظَرَتْ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَفَعَلَتْ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَذَلِكَ سَعْيُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا» فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَى المَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا، فَقَالَتْ صَهٍ - تُرِيدُ نَفْسَهَا -، ثُمَّ تَسَمَّعَتْ، فَسَمِعَتْ أَيْضًا، فَقَالَتْ: قَدْ أَسْمَعْتَ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ غِوَاثٌ، فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَكِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ، فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ، أَوْ قَالَ بِجَنَاحِهِ، حَتَّى ظَهَرَ المَاءُ، فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا هَكَذَا، وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ المَاءِ فِي سِقَائِهَا وَهُوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ، لَوْ تَرَكَتْ زَمْزَمَ - أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ المَاءِ -، لَكَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا قَالَ: فَشَرِبَتْ وَأَرْضَعَتْ وَلَدَهَا، فَقَالَ لَهَا المَلَكُ: لاَ تَخَافُوا الضَّيْعَةَ، فَإِنَّ هَا هُنَا بَيْتَ اللَّهِ، يَبْنِي هَذَا الغُلاَمُ وَأَبُوهُ، وَإِنَّ اللَّهَ لاَ يُضِيعُ أَهْلَهُ، وَكَانَ البَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الأَرْضِ كَالرَّابِيَةِ، تَأْتِيهِ السُّيُولُ، فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ، فَكَانَتْ كَذَلِكَ حَتَّى مَرَّتْ بِهِمْ رُفْقَةٌ مِنْ جُرْهُمَ، أَوْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنْ جُرْهُمَ، مُقْبِلِينَ مِنْ طَرِيقِ كَدَاءٍ، فَنَزَلُوا فِي أَسْفَلِ مَكَّةَ فَرَأَوْا طَائِرًا عَائِفًا، فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَيَدُورُ عَلَى مَاءٍ، لَعَهْدُنَا بِهَذَا الوَادِي وَمَا فِيهِ مَاءٌ، فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا أَوْ جَرِيَّيْنِ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ، فَرَجَعُوا فَأَخْبَرُوهُمْ بِالْمَاءِ فَأَقْبَلُوا، قَالَ: وَأُمُّ إِسْمَاعِيلَ عِنْدَ المَاءِ، فَقَالُوا: أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَكِ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، وَلَكِنْ لاَ حَقَّ لَكُمْ فِي المَاءِ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَأَلْفَى ذَلِكَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُحِبُّ الإِنْسَ» فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَى أَهْلِيهِمْ فَنَزَلُوا مَعَهُمْ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ، وَشَبَّ الغُلاَمُ وَتَعَلَّمَ العَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ، وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِينَ شَبَّ، فَلَمَّا أَدْرَكَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ، وَمَاتَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، فَجَاءَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَمَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِكَتَهُ، فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ، فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا، ثُمَّ سَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ، فَقَالَتْ نَحْنُ بِشَرٍّ، نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ، فَشَكَتْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلاَمَ، وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ، فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ كَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا، فَقَالَ: هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا، فَسَأَلَنَا عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، وَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا، فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ، قَالَ: فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكِ أَبِي، وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ، الحَقِي بِأَهْلِكِ، فَطَلَّقَهَا، وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى، فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ فَلَمْ يَجِدْهُ، فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ فَسَأَلَهَا عَنْهُ، فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا، قَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ؟ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ، فَقَالَتْ: نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ، وَأَثْنَتْ عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ: مَا طَعَامُكُمْ؟ قَالَتِ اللَّحْمُ، قَالَ فَمَا شَرَابُكُمْ؟ قَالَتِ المَاءُ. قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالمَاءِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ يَوْمَئِذٍ حَبٌّ، وَلَوْ كَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ». قَالَ: فَهُمَا لاَ يَخْلُو عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَكَّةَ إِلَّا لَمْ يُوَافِقَاهُ، قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلاَمَ، وَمُرِيهِ يُثْبِتُ عَتَبَةَ بَابِهِ، فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ قَالَ: هَلْ أَتَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الهَيْئَةِ، وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ، فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ، قَالَ: فَأَوْصَاكِ بِشَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ، هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلاَمَ، وَيَأْمُرُكَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكِ أَبِي وَأَنْتِ العَتَبَةُ، أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِكَكِ، ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ، وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلًا لَهُ تَحْتَ دَوْحَةٍ قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ، فَلَمَّا رَآهُ قَامَ إِلَيْهِ، فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَعُ الوَالِدُ بِالوَلَدِ وَالوَلَدُ بِالوَالِدِ، ثُمَّ قَالَ يَا إِسْمَاعِيلُ، إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ، قَالَ: فَاصْنَعْ مَا أَمَرَكَ رَبُّكَ، قَالَ: وَتُعِينُنِي؟ قَالَ: وَأُعِينُكَ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ هَا هُنَا بَيْتًا، وَأَشَارَ إِلَى أَكَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ عَلَى مَا حَوْلَهَا، قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ رَفَعَا القَوَاعِدَ مِنَ البَيْتِ، فَجَعَلَ إِسْمَاعِيلُ يَأْتِي بِالحِجَارَةِ وَإِبْرَاهِيمُ يَبْنِي، حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَ البِنَاءُ، جَاءَ بِهَذَا الحَجَرِ فَوَضَعَهُ لَهُ فَقَامَ عَلَيْهِ، وَهُوَ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الحِجَارَةَ، وَهُمَا يَقُولاَنِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ} [البقرة: 127]، قَالَ: فَجَعَلاَ يَبْنِيَانِ حَتَّى يَدُورَا حَوْلَ البَيْتِ وَهُمَا يَقُولاَنِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ} [البقرة: 127]

مترجم:

3364.

حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: عورتوں نے جب کمر بند تیار کیا تو انھوں نے وہ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ ؑ سے سیکھاہے، سب سے پہلے انھوں نے ہی کمر بند استعمال کیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ حضرت سارہ ؑ ان کا سراغ نہ پاسکیں، واقعہ یہ ہواکہ حضرت ابراہیم ؑ اسے اور اس کے بیٹےحضرت اسماعیل ؑ کو لےآئے۔ اس وقت حضرت ہاجرہ ؑ حضرت اسماعیل ؑ کو دودھ پلاتی تھیں انھوں نےان دونوں کو خانہ کعبہ کے پاس ایک بڑےدرخت کے قریب، چاہ زم زم پر، مسجد حرام کی بلندجانب والی جگہ پر بٹھا دیا۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں کسی آدمی کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ وہاں پانی ہی موجود تھا۔ بہر حال حضرت ابراہیم ؑ ان دونوں کو وہاں چھوڑگئے اور ان کے قریب ہی ایک تھیلا کھجوروں کا اور ایک مشکیزہ پانی کا رکھ دیا۔ پھر وہ وہاں سے واپس ہوئے تو حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ آپ کے پیچھے روانہ ہوئیں اور کہنے لگیں۔ اے ابراہیم ؑ! آپ کہاں جارہے ہیں؟ ہمیں ایک ایسے جنگل میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جہاں آدمی کا پتہ نہیں اور نہ کوئی چیز ہی یہاں ملتی ہے۔ انھوں نے کئی مرتبہ پکار کر یہ کہا مگر حضرت ابراہیم ؑ نے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ پھر حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ نے ان سے عرض کیا: کیا یہ حکم آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیاہے؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ پھر حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ نے کہا: تب وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور حضرت ابراہیم ؑ (وہاں سے)روانہ ہوگئے۔ پھر جب ثنیہ (گھاٹی)کے پاس پہنچے جہاں وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتے تھے تو آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر کے ہاتھ اٹھائے اور ان الفاظ میں دعا کرنے لگے: ’’اے ہمارےرب!میں نے اپنی اولاد کو بےآب وگیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس چھوڑدیا ہے يَشْكُرُونَ تک۔ ادھر حضرت اُم اسماعیل ؑ (پر یہ بیتی کہ وہ) حضرت اسماعیل ؑ کو دودھ پلاتی اور اس پانی میں سے خود پیتی رہتی لیکن جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو خود بھی پیاسی ہوئی اور بچے کو بھی پیاس لگی۔ اس نے بچےکو دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے، یعنی تڑپ رہا ہے، بچے کی یہ حالت ان کے لیے ناقابل دید تھی، اس لیے اٹھ کر چلیں تو صفا پہاڑی کو دوسرے پہاڑوں کے اعتبار سے قریب پایا، وہ اس پر کھڑی ہو کر وادی کی طرف دیکھنے لگیں تاکہ انھیں کوئی نظر آئے لیکن انھیں وہاں کوئی چیز دیکھائی نہ دی، مجبوراً وہاں سے اتر کر نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا کر بہت تیزی کے ساتھ دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیبت زدہ اور پریشان حال انسان دوڑتا ہے۔ پھر نشیب سے گزر کر مروہ پہاڑی پر چڑھیں۔ اس پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ کوئی آدمی نظر آجائے لیکن وہاں بھی کوئی آدمی نہ دکھائی دیا۔ پھر انھوں نے اس طرح سات چکر لگائے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’لوگ اس لیے ان دونوں (صفاو مروہ) کے درمیان سعی کرتے ہیں۔‘‘ پھر (اسی طرح ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انھوں نے وہاں ایک آواز سنی تو خود اپنے آپ سے کہنے لگیں۔ ’’خاموش! پھر انھوں نے خوب کان لگا کر سنا تو ایک آواز سنائی دی۔ اس کے بعدکہنے لگیں: تونے آواز تو سنادی لیکن کیا تو ہماری فریاد رسی کر سکتا ہے؟ پھر اچانک انھوں نے زم زم کی جگہ ایک فرشتہ دیکھا جس نے اپنی ایڑی یا پرَسے زمین کھودی، فوراً وہاں سے پانی نکل کر بہنے لگا۔ تب وہ اس کے گرد منڈیر بنا کر اسے حوض کی شکل دینے لگیں اور پانی کے چلو بھر بھر کر اپنی مشک میں ڈالنے لگیں۔ مگر ان کے چلو بھر نے کے بعد پانی کا چشمہ جوش مارنے لگا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ پر رحم کرے! اگر وہ زم زم کو اس کے حال پر چھوڑدیتیں۔‘‘ یا فرمایا: ’’وہ پانی کے چلو نہ بھرتیں تو زم زم سطح زمین پر ایک بہنے والا چشمہ رہتا۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت ہاجرہ ؑ نے پانی پیا اور اپنے بچے کو دودھ پلایا۔ اس کے بعد فرشتے نے ان سے کہا: تم ہلاکت کا خوف نہ کرو، یہاں اللہ کا گھر ہے، جس کو یہ بچہ اور ان کے والد تعمیر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کسی صورت میں اپنے ماننے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اس وقت کعبہ کا یہ حال تھا کہ وہ ایک ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ جب سیلاب آتے تو اس کی دائیں اور بائیں جانب کٹ جاتےتھے۔ پھر ہاجرہ ؑ نے ایک مدت اسی طرح گزاری حتیٰ کہ قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ یا خاندان ان کی طرف سے گزرے، وہ کداءکے راستے سے واپس آرہے تھے تو وہ مکہ مکرمہ کے نشیب میں اترگئے۔ اتنے میں انھوں نے ایک پرندے کو ایک جگہ منڈلاتے دیکھا تو کہنے لگے: یہ پرندہ ضرور پانی پر گھوم رہا ہے، حالانکہ ہم اس وادی کو جانتے ہیں، اور یہاں ہم نے کبھی پانی دیکھا تک نہیں۔ تب انھوں نے ایک دو آدمی بھیجے تو وہ پانی پر پہنچ گئے۔ پھر انھوں نے لوٹ کر ان لوگوں کو اطلاع دی تو سب لوگ ادھر کو چل پڑے۔ ان لوگوں نے حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ کو پانی پر موجود پاکر پوچھا: کیا آپ ہمیں اپنے پاس قیام کرنے کی اجازت دیتی ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں، لیکن اس شرط پر کہ تمھارا پانی پر کوئی حق نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا: ٹھیک ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس قبیلے نے حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ کو الفت پسند پایا۔‘‘ اس لیے انھوں نے اپنے اہل وعیال بلا کر وہاں رہائش اختیار کر لی حتی کہ وہاں ان لوگوں کے کئی گھر آباد ہو گئے اور لڑکا، یعنی حضرت اسماعیل ؑ بھی جوان ہو گیا اور انھوں نے ان لوگوں (قبیلہ جرہم)سے عربی زبان بھی سیکھ لی۔ بہر حال ان لوگوں کے نزدیک حضرت اسماعیل ؑ ایک پسندیدہ اخلاق اور انتہائی نفیس انسان ثابت ہوئے، چنانچہ جب وہ اچھی طرح جوان ہوگئے تو انھوں نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے ان کی شادی کردی۔ اس دوران میں حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں۔ حضرت اسماعیل ؑ کی شادی کے بعد حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیوی بچوں کو دیکھنے آئے تو اس وقت حضرت اسماعیل ؑ سے ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔ انھوں نے (اپنی بہو) ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا: وہ ہمارے لیے اسباب معاش کی تلاش میں باہر گئے ہیں۔ پھر آپ نے اس سے گھر کی گزر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو اس(بیوی)نے کہا: ہم سخت مصیبت اور تکلیف میں ہیں اور ہمارے حالات بہت ہی دگرگوں ہیں۔ الغرض اس نے ان (حضرت ابراہیم ؑ )سے بہت شکایت کی۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: جب تمھارے شوہر آئیں تو انھیں میرا سلام کہنا اور انھیں کہنا کہ اپنے دروازے کی دہلیز بدل دیں۔ پھر جب حضرت اسماعیل ؑ گھر آئے تو انھوں نے کوئی مانوس سی چیز گھر میں محسوس کی، اہلیہ سے پوچھا: یہاں کوئی آیاتھا؟ اس نے کہا: ہاں، اس اس طرح ایک بزرگ آئے تھے اور انھوں نے آپ کے متعلق مجھ سے پوچھا تو میں نے انھیں آپ کے متعلق بتادیا تھا۔ پھر انھوں نے احوال زندگی کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہماری زندگی بڑی تنگی اور مصیبت سے گزرتی ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ نے اس سے دریافت کیا کہ انھوں نے تمھیں کوئی وصیت فرمائی تھی؟اہلیہ نے کہا: ہاں، انھوں نے مجھے کہا ہے کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اپنے دروازے کی دہلیز بدل دیں۔ تب حضرت اسماعیل ؑ نے کہا: وہ میرے والد محترم تھے اور انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم سے علیحدگی اختیار کر لوں، لہٰذا تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔ الغرض حضرت اسماعیل ؑ نے اسے طلاق دے کر اسی قبیلے میں سے ایک دوسری عورت کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو جتنے دن منظور تھا حضرت ابراہیم ؑ اپنے ملک میں ٹھہرے۔ اس کے بعد دوبارہ تشریف لائے لیکن اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل ؑ کو اپنے گھر نہ پایا۔ ان کی بیوی کے پاس گئے اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لیے تلاش معاش کے سلسلے میں باہر گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دریافت کیا: تمھاری گزر اوقات کیسی ہوتی ہے؟ اور دیگر حالات کے متعلق بھی پوچھا تو اس نےکہا: اللہ کا شکر ہے کہ ہم اچھی حالت اور کشادگی میں ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پوچھا: تم کیا کیا کھاتے ہو؟ اس نے جواب دیا: گوشت کھاتے ہیں۔ پھر پوچھا : کیا پیتے ہو؟ اس نے بتایا کہ پانی پیتے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے ان کے لیے دعا کی: اے اللہ! ان کے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس وقت وہاں غلہ نہیں ہوتا تھا۔ اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لیے برکت کی دعا کرتے۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا کہ اہل مکہ کے علاوہ جو شخص بھی ان دوچیزوں پر ہمیشگی کرے گا اسے یہ چیزیں موافق نہیں آئیں گی۔ بہر حال حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا: ’’جب تمھارے شوہر واپس آئیں تو انھیں میرا سلام کہہ دینا اور انھیں اپنے دروازے کی دہلیز باقی رکھنے کا پیغام دینا۔ پھر جب حضرت اسماعیل ؑ گھر آئے تو انھوں نے دریافت کیا کہ تمھارے پاس کوئی آیا تھا؟ اس (بیوی) نے کہا: ہاں، ایک خوش وضع بزرگ شخص ہمارے ہاں آئے تھے اور اس نے ان کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے مجھ سے تمھارے متعلق پوچھا تھا۔ میں نے بتایا کہ وہ فلاں کام گئے ہیں۔ پھر انھوں نے ہماری گزر بسر کے متعلق پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ حضرت اسماعیل ؑ نے اہلیہ سے پوچھا کہ انھوں نے تمھیں کسی بات کی وصیت کی تھی؟ بیوی نے کہا: ہاں، وہ آپ کو سلام کہہ رہے تھے اور اپنے دروازے کی دہلیز قائم رکھنے کا حکم دے رہے تھے۔ حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا: وہ میرے والد گرامی تھے اور دروازے کی دہلیز تم ہو۔ انھوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں اپنے پاس رکھوں۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ جس قدر اللہ نے چاہا اپنے ملک میں ٹھہرے، اس کے بعد تشریف لائے تو اس وقت حضرت اسماعیل ؑ زم زم کے پاس ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھے اپنے تیر درست کر رہے تھے۔ جب حضرت اسماعیل ؑ نے حضرت ابراہیم ؑ کو دیکھا تو تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے پھر دونوں نے ملا قات کرتے وقت وہی کچھ کیا جو باپ بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ کرتا ہے۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: اسے اسماعیل ؑ! اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے عرض کیا: جو کچھ آپ کے رب نے حکم دیا ہے آپ اسے ضرور کریں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا : اس کام میں تم میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں، میں آپ کی مدد کروں گا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا: اللہ نے مجھےحکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر تعمیر کروں اور انھوں نے ایک ٹیلے کی طرف اشارہ فرمایا جو اپنے آس پاس کی چیزوں سے قدرے اونچا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بیادوں کو اٹھایا۔ حضرت اسماعیل ؑ پتھر لاتے اور حضرت ابراہیم ؑ تعمیر کرتے تھے یہاں تک کہ جب دیواریں اونچی ہو گئیں تو حضرت اسماعیل ؑ یہ پتھر (جسے مقام ابراہیم کہا جا تا ہے) لائے اور اسے ان کے لیے رکھ دیا، چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور حضرت اسماعیل ؑ انھیں پتھر پکڑاتے تھے اور وہ دونوں اس طرح دعا کرتے تھے: ’’اے ہمارے رب! ہم سے اس خدمت کو قبول فرمایقیناً تو ہی سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ راوی کہتا ہے: وہ دونوں کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے اور بیت اللہ کے ارد گرد گھومتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے۔ ’’اے ہمارے رب!ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بے شک تو ہی سب کچھ سننے والاسب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘