صحیح بخاری
60. کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
9. باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو (نبی بناکر) بھیجا انہوں نے کہا‘اے قوم!اللہ کی عبادت کرو‘‘
باب: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہود کو (نبی بناکر) بھیجا انہوں نے کہا‘اے قوم!اللہ کی عبادت کرو‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Prophets
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And to 'Ad (people, We sent), their brother Hud.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
3365.
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت علی ؓ نے نبی ﷺ کی خدمت میں (خام) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا تو آپ نے اسے چار اشخاص میں تقسیم کردیا: اقرع بن حابس خنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فرازی، زید بن طائی جو بنو نبہان کا ایک آدمی تھا اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنو کلاب کا ایک فرد تھا۔ اس تقسیم پر قریش اور انصار غصے سے بھر گئے کہ آپ اہل نجد کے سرداروں کو عطیات دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں انھیں تالیف قلوب کے لیے دیتا ہوں۔‘‘ اس دوران میں ایک آدمی سامنے آیا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی۔ رخسار ابھرے ہوئے، پیشانی اونچی، داڑھی گھنی اور سر منڈاہواتھا۔ اس نے کہا: اے محمد ﷺ! اللہ سے ڈریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگوں تو اور کون فرمانبرداری کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تومجھے اہل زمین پر امین بنایا ہے لیکن تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔‘‘ ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ میرے خیال میں وہ خالد بن ولید ؓ تھے۔ آپ نے انھیں روک دیا۔ جب وہ شخص چلاگیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس شخص کی نسل یا اس کے نسب سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کریم تو پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گےجیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے۔ اگر میں انھیں پالوں تو ضرور انھیں ایسے قتل کروں جیسے قوم عاد نیست و نابود ہوئی ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ قبیلہ بنو تمیم کے اس نامراد انسان کو ذوالخوبصرہ کہا جاتا تھا حرقوص بن زہیر کے نام سے موسوم اور ذوالثدیہ اس کا لقب تھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کے حضور تباہ و برباد کر دینے والی انتہائی ذلیل اور گھٹیا حرکت کی جسارت کی تھی۔ اس وقت بعض مصلحتوں کی بنا پر آپ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ یہی شخص بعد میں خارجیوں کا سر پرست بنا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا پھر حضرت علی ؓ نے اسے قتل کیا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ انھیں ایسا قتل عاد کا ذکر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3215
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3344
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3344
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3344
تمہید کتاب
ان کے علاوہ باقی سات کا ذکر دیگر مقامات پر ہے۔ ان میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور آخری خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام انبیائے کرام علیہ السلام نرگزیدہ پسندیدہ اور خلاصہ کائنات ہیں لیکن یہودی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرات انبیاء علیہ السلام گناہوں اور غلطیوں سے معصوم نہیں بلکہ انھوں نے انبیاء علیہ السلام کے لیے منکرات مثلاً:"زنا شراب نوشی اور عورتوں کو ان کے خاوندوں سے چھین لینے کے ارتکاب کو ممکن قراردیا ہے۔ اس کے متعلق یہودی اپنے ہاں موجودہ تورات پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ نوح علیہ السلام کے متعلق بائیل میں ہے نوح کاشتکاری کرنے لگا اور اس نے انگور کا ایک باغ لگایا اس نے مے نوشی کی اور اسے نشہ آیا تو وہ اپنے ڈیرےمیں برہنہ ہو گیا۔(پیدائش باب 9۔آیت:20۔21)حضرت لوط کے متعلق لکھا ہے۔ لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں ۔بڑی کے ہاں ایک بیٹا ہوا اور چھوٹی نے بھی ایک بیٹے کو جنم دیا۔(پیدائش باب 9۔آیت36)حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ان کی نظر ایک نہاتی ہوئی پڑوسن پر پڑی تو وہ اس پر فریفۃ ہو گئے اور اسے بلا کر اس سے بدکاری کی۔ وہ اس سے حاملہ ہوگئی پھر انھوں نے کوشش کی کہ یہ حمل اس کے خاوند کے ذمے لگ جائے۔بلآخر انھوں نے اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مرواڈالا اور عورت سے شادی رچالی۔۔(سموئیل باب 11۔آیت 1۔6)حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے۔ جب سلیمان بڈھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کردیا اور اس کا دل اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا تھا۔(بائبل کتاب سلاطین باب 11۔آیت۔4)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق یہودیوں کی بکواس کو ملاحظہ کیا تو کتاب الانبیاء میں قرآنی آیات اور احادیث سے مزین ان کی سیرت واخلاق کو مرتب کیا۔ اس گلدستے کی تشکیل میں دو سونواحادیث ذکر کی ہیں آپ نے صحیح احادیث کی روشنی میں تقریباً بیس انبیائے کرام علیہ السلام کے حالات وواقعات اور اخلاق و کردار کو بیان کیا ہے۔ضمنی طور پر حضرت مریم علیہ السلام ،ذوالقرنین ، حضرت لقمان،اصحاب کہف اور اصحاب غار کا ذکر بھی کیا ہےان کے علاوہ بنی اسرائیل کے حالات بیان کرتے ہوئے یاجوج اور ماجوج سے متعلق ذکر کی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مؤرخین کی طرح تاریخی معلومات فراہم کرتے ہوئے نرمی اور تساہل سے کام نہیں کیا بلکہ سیرت انبیاء مرتب کرتے ہوئےراویوں کی عدالت و ثقاہت کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس طرح فقہی مسائل میں مجتہد ہیں اسی طرح تاریخی حقائق بیان کرنے میں منصب اجتہاد پر فائز نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں مؤرخین کی پروانہیں کرتے۔ بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث پر چون (54)کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے حضرات انبیاء علیہ السلام کے متعلق متعدد واقعات وحقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان احادیث میں ایک سو ستائیس مکرراور بیاسی احادیث خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین عظام سے تقریباً چھیاسی آثار بھی مروی ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وافر اور مستند خزانے سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے اور ان پاکیزہ لوگوں کی سیرت کے مطابق اپنے اخلاق وکردار کو ڈھا لنے کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ہود علیہ السلام کی سیرت سے سورہ احقاف اور سورہ حاقہ کی آیات ذکر کی ہیں۔ سیاق و سباق کے حوالے سے ان آیات کا ترجمہ یہ ہے۔(ا)"اور ان سے قوم عاد کے بھائی (ہود) کا ذکر کریں جب اس نے احقاف میں اپنی قوم کو ڈرایا جبکہ ان سے پہلے بھی ڈرانے والے آئے اور اس کے بعد بھی آتے رہے۔ انھوں نے کہا: اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ بلا شبہ میں تمھیں ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں وہ کہنے لگے۔ کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں سے پھیرو۔؟اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی ہمیں دھمکی دیتے ہو وہ لے آؤ۔ ہود نے کہا اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔میں تو تمھیں وہ پیغام پہنچا رہا ہوں جو مجھے دے کربھیجا گیا ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نادان لوگ ہو۔ پھر جب انھوں نے اس بادل کو اپنے میدانوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو کہنے لگے یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا بلکہ وہ یہ چیز تھی جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے یعنی ایسی آندھی جس میں درد ناک عذاب تھا وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر چیز کو تہس نہس کر رہی تھی۔آخر ان کا یہ حال ہوا کہ ان کے گھروں کے سوا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔ ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیا کرتے ہیں۔"(الاحقاف46۔21۔25)احقاف حقف کی جمع ہے۔ اس کے معنی ریت کے بڑے بڑےٹیلوں کے ہیں۔ یہ علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا جو کسی زمانے میں سرسبز و شاداب خطہ تھا۔قوم عاد نے اس جگہ زمین دوزمکانات بنارکھےتھے یہ علاقہ جنوبی عرب میں حضر موت کے شمال کی طرف واقع ہےاور آج کل وہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں جو میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔اسے آج کل ربع خالی کہاجاتا ہے کوئی شخص اس صحرا ء میں داخل ہونے کی جرات نہیں کرتا اور جو چیز اس ریت میں گر پڑے وہ بھی ریت میں دھنس کر ریت ہی بن جاتی ہے۔ اس قوم پر اللہ کا عذاب سخت آندھی کی شکل میں آیا۔اس کی تیزی کا یہ عالم تھا کہ وہ بڑے بڑے تناور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ کر پرے پھینک دیتی تھی۔ یہی آندھی ان کے زمین دوز مکانوں میں گھس گئی۔اس دوران میں وہ اپنے محلات سے نکل بھی نہیں سکتے تھے سردی کی شدت سے وہیں ٹھٹھر ٹھٹھرکر مرگئے۔تباہی کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی چیز وہاں نظر آتی تھی تو وہ ان کے مکانات تھے جن میں دراڑیں پڑ چکی تھیں جیسا کہ آیات بالا میں ان کی تصویر کشی کی گئی ہے۔(ب)"رہے عاد!تو وہ سناٹے کی سخت آندھی سے ہلاک کیے گئے اللہ تعالیٰ نے اس آندھی کو ان پر متواتر سات راتیں اور آٹھ دن تک مسلط کیے رکھا۔ آپ(وہاں ہوتے تو)دیکھتے کہ وہاں لوگ یوں (چاروں شانے) چت گرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔کیا آپ ان میں سے کسی کو باقی بچا دیکھتے ہیں۔"(الحاقہ:69۔6۔9)واضح رہے کہ قوم ہود پر جو عذاب آیا وہ سخت آندھی کا عذاب تھا۔ ہوانہایت سرد اور اتنی شرکش تھی جس پر کسی مخلوق کا زور نہ چلتا تھا حتی کہ فرشتے جو ہوا کے نظام پر مامور ہیں ان کا بھی اس پر کنٹرول نہیں تھا۔جیسا کہ لفظ عاتیہ سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت علی ؓ نے نبی ﷺ کی خدمت میں (خام) سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا تو آپ نے اسے چار اشخاص میں تقسیم کردیا: اقرع بن حابس خنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فرازی، زید بن طائی جو بنو نبہان کا ایک آدمی تھا اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنو کلاب کا ایک فرد تھا۔ اس تقسیم پر قریش اور انصار غصے سے بھر گئے کہ آپ اہل نجد کے سرداروں کو عطیات دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں انھیں تالیف قلوب کے لیے دیتا ہوں۔‘‘ اس دوران میں ایک آدمی سامنے آیا جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی۔ رخسار ابھرے ہوئے، پیشانی اونچی، داڑھی گھنی اور سر منڈاہواتھا۔ اس نے کہا: اے محمد ﷺ! اللہ سے ڈریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگوں تو اور کون فرمانبرداری کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تومجھے اہل زمین پر امین بنایا ہے لیکن تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔‘‘ ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ میرے خیال میں وہ خالد بن ولید ؓ تھے۔ آپ نے انھیں روک دیا۔ جب وہ شخص چلاگیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس شخص کی نسل یا اس کے نسب سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کریم تو پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گےجیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے۔ اگر میں انھیں پالوں تو ضرور انھیں ایسے قتل کروں جیسے قوم عاد نیست و نابود ہوئی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ قبیلہ بنو تمیم کے اس نامراد انسان کو ذوالخوبصرہ کہا جاتا تھا حرقوص بن زہیر کے نام سے موسوم اور ذوالثدیہ اس کا لقب تھا۔ اس نے رسول اللہ ﷺ کے حضور تباہ و برباد کر دینے والی انتہائی ذلیل اور گھٹیا حرکت کی جسارت کی تھی۔ اس وقت بعض مصلحتوں کی بنا پر آپ نے اسے قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ یہی شخص بعد میں خارجیوں کا سر پرست بنا اور اس نے مسلمانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا پھر حضرت علی ؓ نے اسے قتل کیا۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ انھیں ایسا قتل عاد کا ذکر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(حضرت امام بخاری ؓ نے کہا) کہ ابن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے ابن ابی نعیم نے اور ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ نے (یمن سے) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کردیا، اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی ، عیینہ بن بدر فزاری ، زید طائی بنی نبہان والے اور علقمہ بن علاثہ عامری بنو کلاب والے، اس پر قریش اور انصار کے لوگوں کو غصہ آیا اور کہنے لگے کہ آنحضرت ﷺ نے نجد کے بڑوں کو تو دیا لیکن ہمیں نظر انداز کردیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں صرف ان کے دل ملانے کے لیے انہیں دیتا ہوں (کیوں کہ ابھی حال ہی میں یہ لوگ مسلمان ہوئے ہیں) پھر ایک شخص سامنے آیا، اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، کلے پھولے ہوئے تھے، پیشانی بھی اٹھی ہوئی، ڈاڑھی بہت گھنی تھی اور سرمنڈا ہوا تھا۔ اس نے کہا اے محمد! اللہ سے ڈرو (ﷺ) آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر اس کی فرمانبرداری کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے مجھے روئے زمین پر دیانت دار بناکر بھیجا ہے۔ کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ اس شخص کی اس گستاخی پر ایک صحابی نے اس کے قتل کی اجازت چاہی، میرا خیال ہے کہ یہ حضرت خالد بن ولید تھے، لیکن آنحضرت ﷺ نے انہیں اس سے روک دیا، پھر وہ شخص وہاں سے چلنے لگا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس شخص کی نسل سے یا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) اس شخص کے بعد اسی کی قوم سے ایسے لوگ جھوٹے مسلمان پیدا ہوں گے، جو قرآن کی تلاوت تو کریں گے، لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے وہ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیرکمان سے نکل جاتاہے، یہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑدیں گے، اگر میری زندگی اس وقت تک باقی رہے تو میں ان کو اس طرح قتل کروں گا جیسے قوم عاد کا (عذاب الٰہی سے) قتل ہوا تھا کہ ایک بھی باقی نہ بچا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے آخر میں قوم عاد کے عذاب الٰہی سے ہلاک ہونے کا ذکر ہے اس مناسبت سے یہ حدیث یہاں درج کی گئی، جس بدبخت گروہ کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ یہ خارجی تھے جنہوں نے حضرت علی ؓ کے خلاف خروج کیا ان پر کفر کا فتویٰ لگایا، خود اتباع قرآن کا دعویٰ کیا، آخر حضرت علی ؓ سے مقابلہ میں یہ لوگ مارے گئے، دینداری کا دعویٰ کرنے اور دوسرے مسلمانوں کو بنظر حقارت دیکھنے والے آج بھی بہت سے لوگ موجود ہیں، لمبے لمبے کرتے پہنے ہوئے ہاتھوں میں تسبیح لٹکائے ہوئے، بغلوں میں قرآن دبائے ہوئے مگر ان کے دلوں کو دیکھو تو بھیڑيے معلوم ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
`Ali sent a piece of gold to the Prophet (ﷺ) who distributed it among four persons: Al-Aqra' bin H`Abis Al-Hanzali from the tribe of Mujashi, 'Uyaina bin Badr Al-Fazari, Zaid at-Ta'i who belonged to (the tribe of) Bani Nahban, and 'Alqama bin Ulatha Al-`Amir who belonged to (the tribe of) Bani Kilab. So the Quraish and the Ansar became angry and said, "He (i.e. the Prophet, ) gives the chief of Najd and does not give us." The Prophet (ﷺ) said, "I give them) so as to attract their hearts (to Islam)." Then a man with sunken eyes, prominent checks, a raised forehead, a thick beard and a shaven head, came (in front of the Prophet (ﷺ) ) and said, "Be afraid of Allah, O Muhammad!" The Prophet (ﷺ) ' said "Who would obey Allah if I disobeyed Him? (Is it fair that) Allah has trusted all the people of the earth to me while, you do not trust me?" Somebody who, I think was Khalid bin Al-Walid, requested the Prophet (ﷺ) to let him chop that man's head off, but he prevented him. When the man left, the Prophet (ﷺ) said, "Among the off-spring of this man will be some who will recite the Qur'an but the Qur'an will not reach beyond their throats (i.e. they will recite like parrots and will not understand it nor act on it), and they will renegade from the religion as an arrow goes through the game's body. They will kill the Muslims but will not disturb the idolaters. If I should live up to their time' I will kill them as the people of 'Ad were killed (i.e. I will kill all of them)."