تشریح:
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ جب بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے تو انھوں نے مذکورہ دعا کے ساتھ مزید دعائیں بھی کیں جنھیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ اللہ کے حضور ان الفاظ میں دعائیں کیں:’’اے ہمارے پروردگار!ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم جماعت بنا۔ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔بلاشبہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا ،نہایت رحم کرنے والا ہے۔اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول بھیج جو انھی میں سے ہو۔وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے۔انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے۔بلاشبہ تونہایت غالب اور خوب حکمت والا ہے۔‘‘ (البقرة:128/2، 129) اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک ایک دعا کو شرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ آپ سراپا تسلیم ورضا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان سے فرمایا:’’ابراہیم!تم فرمانبردار ہوجاؤ توانھوں نے فوراً جواب دیا:میں جہانوں کے رب کا فرمانبردار بنتا ہوں۔‘‘ (البقرة:131/2) اس فرمانبرداری کی جھلک نمایاں طور پر اس وقت نظر آتی ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں اشارے سے کہا:اپنے بیٹے کومیری خاطر ذبح کردو تو فوراً تعمیل حکم کے لیے تیار ہوگئے۔ ان کی فرمانبرداری کو قرآن نے بیان کیا ہے:’’جب وہ بیٹا (اسماعیل ؑ) ان کے ہمراہ دوڑدھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم ؑ نے کہا:پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا:اباجان! وہی کچھ کریں جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا، تب ہم نے پکارا:اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کردکھایا، ہم یقیناً نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی ان کافدیہ دیا اور پچھلے لوگوں میں ان کاذکرخیر چھوڑدیا۔ ابراہیم پر سلامتی ہو۔‘‘ (102/37، 109)چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اطاعت گزاری کے متعلق قائم کردہ مثال اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ قربانی کو مستقل سنت بنادیا۔ قیامت تک لوگ قربانی کرکے اس سنت کو زندہ کرتے رہیں گے۔ واللہ أعلم۔