قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابٌ: یَزِفُون : النَّسَلانٌ فِی المَشئیِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

3365. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ المَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ، خَرَجَ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيلَ، وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيهَا مَاءٌ، فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ، فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى أَهْلِهِ، فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، حَتَّى لَمَّا بَلَغُوا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ: يَا إِبْرَاهِيمُ إِلَى مَنْ تَتْرُكُنَا؟ قَالَ: إِلَى اللَّهِ، قَالَتْ: رَضِيتُ بِاللَّهِ، قَالَ: فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، حَتَّى لَمَّا فَنِيَ المَاءُ، قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، قَالَ فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا فَنَظَرَتْ، وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ أَحَدًا، فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، فَلَمَّا بَلَغَتِ الوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتِ المَرْوَةَ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ أَشْوَاطًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ، تَعْنِي الصَّبِيَّ، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هُوَ عَلَى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ، فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا، فَقَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ، لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتِ الصَّفَا، فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا، حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ، فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ، فَقَالَتْ: أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ، فَإِذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: فَقَالَ بِعَقِبِهِ هَكَذَا، وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الأَرْضِ، قَالَ: فَانْبَثَقَ المَاءُ، فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ المَاءُ ظَاهِرًا». قَالَ: فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ المَاءِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، قَالَ: فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الوَادِي، فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ، كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا ذَاكَ، وَقَالُوا: مَا يَكُونُ الطَّيْرُ إِلَّا عَلَى مَاءٍ، فَبَعَثُوا رَسُولَهُمْ فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ، فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ، فَأَتَوْا إِلَيْهَا فَقَالُوا: يَا أُمَّ إِسْمَاعِيلَ، أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَكُونَ مَعَكِ، أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ، فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيهِمُ امْرَأَةً، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، قَالَ: فَجَاءَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ؟ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: ذَهَبَ يَصِيدُ، قَالَ: قُولِي لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَ: أَنْتِ ذَاكِ، فَاذْهَبِي إِلَى أَهْلِكِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، قَالَ: فَجَاءَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ؟ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: ذَهَبَ يَصِيدُ، فَقَالَتْ: أَلاَ تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ، فَقَالَ: وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ؟ قَالَتْ: طَعَامُنَا اللَّحْمُ وَشَرَابُنَا المَاءُ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ» قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لِأَهْلِهِ: إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ يُصْلِحُ نَبْلًا لَهُ، فَقَالَ: يَا إِسْمَاعِيلُ، إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا، قَالَ: أَطِعْ رَبَّكَ، قَالَ: إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِي أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ، قَالَ: إِذَنْ أَفْعَلَ، أَوْ كَمَا قَالَ: قَالَ فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَبْنِي، وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الحِجَارَةَ وَيَقُولاَنِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ} [البقرة: 127]. قَالَ: حَتَّى ارْتَفَعَ البِنَاءُ، وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَنْ نَقْلِ الحِجَارَةِ، فَقَامَ عَلَى حَجَرِ المَقَامِ، فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الحِجَارَةَ وَيَقُولاَنِ: {رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ العَلِيمُ} [البقرة: 127]

مترجم:

3365.

حضرت ابن عباس  ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی (سارہ) کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تو آپ حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ ماجدہ کو ساتھ لے کر باہرنکل آئے جبکہ ان کے پاس صرف ایک مشکیزہ پانی کا تھا۔ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ اس میں سے پانی پیتی رہیں اور ان کا دودھ بچے کے لیے جوش مارتا رہا حتی کہ جب وہ (حضرت ابراہیم ؑ) مکہ مکرمہ آئے تو انھیں ایک بڑےدرخت کے نیچے بٹھا دیا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کی طرف واپس چلے تو حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ ان کے پیچھے آئیں حتی کہ وہ مقام کداء میں پہنچے تو ان کے پیچھے سے آواز دی۔ اے ابراہیم ؑ!ہمیں کس کے پاس چھوڑ کر جارہے ہو؟انھوں نے جواب دیا: اللہ کے پاس، حضرت ہاجرہ نے کہا: میں اللہ پر راضی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلی آئیں اور مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور بچے کے لیے دودھ جوش مارتا رہا حتی کہ جب پانی ختم ہو گیا تو کہنے لگیں۔ اب ادھر  اُدھر دیکھنا چاہیے شاید کوئی آدمی نظر آجائے۔ یہ سوچ کر وہ چلیں اور صفا پہاڑی پر چڑھ کر دیکھنے لگیں لیکن کوئی شخص نظر نہ آیا۔ پھر وادی میں اتریں تو دوڑیں اور مروہ پرآئیں۔ اسی طرح انھوں نے کئی چکر لگائے پھر سوچا کہ جاؤں اور بچے کو دیکھوں وہ کس حالت میں ہے؟ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا گویا وہ موت کے لیے تڑپ رہا ہے۔ یہ حالت دیکھ کر دل بےقرارکو قرار نہ آیا تو خیال کیا کہ میں جاؤں شاید کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ چلیں اور صفا پہاڑی پر چڑھ کر ادھر اُدھر دیکھنےلگیں حتی کہ سات چکر پورے کیے۔ پھر سوچا جاؤں اور دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے؟ اس وقت انھیں وہاں ایک آواز سنائی دی تو انھوں نےکہا: اگر تمھارےپاس کچھ بھلائی ہے تو میری مدد کرو۔ وہاں حضرت جبریل ؑ موجود تھے۔ انھوں نےاپنی ایڑی سے اشارہ کیا، یعنی زمین پر ایڑی ماری تو پانی پھوٹ پڑا۔ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ حیران ہو گئیں۔ پھر زمین کھودنے لگیں۔ حضرت ابن عباس  ؓنے کہا کہ حضرت ابو القاسم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی سطح زمین پر بہتا رہتا۔‘‘ الغرض حضرت ہاجرہ وہ پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ بچے کو پلاتی رہیں۔ حضرت ابن عباس  نے کہا: اس وادی سے قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ گزرے تو انھوں نے پرندہ دیکھا تو حیران رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی ہی پر اڑتا ہے، تاہم انھوں نے اپنے قاصد کو بھیجا تو اس نے دیکھا کہ وہاں پانی تھا۔ وہ قاصد ان کے پاس آیا اورانھیں پانی سے آگاہ کیا، چنانچہ وہ لوگ حضرت ہاجرہ کے پاس آئے، اور عرض کرنے لگے، اے اسماعیل ؑ کی والدہ!کیا آپ ہمیں اجازت دیتی ہیں کہ ہم آپ کے پاس رہائش رکھیں یا آپ کے قریب سکونت کرلیں؟ (اجازت کے بعد یہ لوگ وہاں رہ گئے۔) جب ان (حضرت ہاجرہ) کا بچہ بالغ ہوا تو اس قبیلےکی ایک عورت سے نکاح کر لیا۔ ادھر حضرت ابراہیم ؑ کو خیال آیا تو اپنی بیوی (سارہ) سے کہا: میں اپنے چھوڑے ہوئے بیوی بچوں کی خبر لینا چاہتا ہوں، چنانچہ وہ مکہ آئے، سلام کہا اور پوچھا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے کہا: وہ شکار کرنے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پیغام دیا کہ جب وہ آئیں تو انھیں کہنا کہ اپنے دروازے کی دہلیز کو تبدیل کردیں۔ حضرت اسماعیل ؑ تشریف لائے تو بیوی نے انھیں ساراواقعہ بتایا۔ انھوں نے فرمایا کہ تو ہی دہلیز ہے، لہٰذا اپنے گھر چلی جاؤ۔ حضرت ابن عباس  نے کہا: پھر دوبارہ حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں خیال آیا تو اپنی بیوی (سارہ) سے فرمایا کہ میں چھوڑے ہوئے بیوی بچوں کو دیکھنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ تشریف لائے اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کہاں ہیں؟ان کی بیوی نے بتایا وہ شکار کرنے گئے ہیں۔ آپ ہمارے ہاں ٹھہریں، کھانا کھائیں اور پانی نوش کریں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے پوچھا : تمھارا خورد نوش کیا ہے؟ اس نے بتایاکہ ہم گوشت کھاتے اور پانی پیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دعا فرمائی : اے اللہ! ان کے کھانے پینے میں برکت عطا فرما: حضرت القاسم ﷺ نے فرمایا: ’’یہ سب کچھ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی برکت ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: پھر حضرت ابراہیم ؑ کو خیال آیا تو اپنی بیوی حضرت (سارہ) سے فرمایا کہ میں اپنے چھوڑے ہوئے بچوں کو دیکھنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ تشریف لائے تو حضرت اسماعیل ؑ سے زمزم کے پیچھے ملاقات ہوگئی جو اپنے تیروں کو درست کر رہے تھے۔ انھوں (حضرت ابراہیم ؑ) نے فرمایا: اے اسماعیل ؑ تیرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بیت اللہ کی تعمیر کروں۔ حضرت اسماعیل ؑ نے عرض کیا: ابا جان! آپ اپنے رب کی فرمانبرداری کریں۔ فرمایا: اس نے مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ آپ تعمیر کعبہ میں میری مدد کریں۔ انھوں نے (حضرت اسماعیل ؑ نے) عرض کیا: میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ بہر حال یہ دونوں حضرات اٹھ کھڑے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ تعمیر کرتے اور حضرت اسماعیل ؑ انھیں پتھر پکڑاتے تھے اور دونوں یہ دعا مانگتے تھے: ’’اے ہمارے رب !ہماری طرف سے اس خدمت کو قبول فرما۔ یقیناً تو ہی سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘  حضرت ابن عباس رضی ؓ فرماتے ہیں۔ جب دیواریں اونچی ہو گئیں اور حضرت ابراہیم ؑ پتھروں کی نقل و حرکت سے عاجز ہو گئےتو وہ مقام ابراہیم پر کھڑے ہوگئے اور حضرت اسماعیل ؑ انھیں پتھر اٹھا کر دینے لگے۔ ساتھ ساتھ وہ دونوں دعا کر رہے تھے۔ ’’اے ہمارے پروردگاذ!ہماراعمل قبول فرما۔ بے شک تو ہی سب کچھ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘