تشریح:
1۔ اس حدیث میں حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر خیر ہے۔ امام بخاری ؒکے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ مباحثہ ان حضرات کی وفات کے بعد ہوا۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں شہداء کی طرح زندہ کردیا ہو اور انھوں نے یہ گفتگو کی ہو۔ 2۔ حضرت آدم ؑ کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر درخت کا پھل کھانا لازم کردیا تھا کہ انھوں نے بے اختیار اور مجبور ہو کر اسے کھایا بلکہ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو میری زندگی سے پہلے ہی مقدر کردیا تھا اور اپنے علم کی بنیاد پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ یہ ہو کر رہے گا اس لیے میں اللہ کے علم اور فیصلے کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتا تھا اور آپ اللہ کے علم سابق سے بے خبر ہو کر صرف میرے اختیار اور کسب کا ذکر کرتے ہو جو ایک سبب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اصل معاملے کو بھول گئے ہو جو تقدیر سے عبارت ہے۔ (عمدة القاري:143/11)