قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَيْمَانَ نِعْمَ العَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ} الرَّاجِعُ المُنِيبُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِهِ: {هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي} [ص: 35] وَقَوْلِهِ: {وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ} [البقرة: 102] {وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ القِطْرِ} [سبأ: 12] أَذَبْنَا لَهُ عَيْنَ الحَدِيدِ {وَمِنَ الجِنِّ مَنْ يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ} [سبأ: 12] إِلَى قَوْلِهِ {مِنْ مَحَارِيبَ} [سبأ: 13] " قَالَ مُجَاهِدٌ: بُنْيَانٌ مَا دُونَ القُصُورِ {وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ} [سبأ: 13]: كَالحِيَاضِ لِلْإِبِلِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " كَالْجَوْبَةِ مِنَ الأَرْضِ {وَقُدُورٍ رَاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ المَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الأَرْضِ}: الأَرَضَةُ {تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ} [سبأ: 14]: عَصَاهُ، {فَلَمَّا خَرَّ} [سبأ: 14]- إِلَى قَوْلِهِ - {فِي العَذَابِ المُهِينِ} [سبأ: 14] {حُبَّ الخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي} [ص: 32]. . {فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالأَعْنَاقِ} [ص: 33]: يَمْسَحُ أَعْرَافَ الخَيْلِ وَعَرَاقِيبَهَا. {الأَصْفَادُ} [إبراهيم: 49] [ص:162]: الوَثَاقُ " قَالَ مُجَاهِدٌ: " {الصَّافِنَاتُ} [ص: 31] صَفَنَ الفَرَسُ: رَفَعَ إِحْدَى رِجْلَيْهِ حَتَّى تَكُونَ عَلَى طَرَفِ الحَافِرِ، {الجِيَادُ} [ص: 31]: السِّرَاعُ. {جَسَدًا} [الأعراف: 148]: شَيْطَانًا، {رُخَاءً} [ص: 36]: طَيِّبَةً {حَيْثُ أَصَابَ} [ص: 36]: حَيْثُ شَاءَ، {فَامْنُنْ} [ص: 39]: أَعْطِ {بِغَيْرِ حِسَابٍ} [البقرة: 212]: بِغَيْرِ حَرَجٍ "

3427. وَقَالَ كَانَتْ امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِّئْبُ فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا فَقَالَتْ صَاحِبَتُهَا إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ وَقَالَتْ الْأُخْرَى إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ فَأَخْبَرَتَاهُ فَقَالَ ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ الصُّغْرَى لَا تَفْعَلْ يَرْحَمُكَ اللَّهُ هُوَ ابْنُهَا فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ إِلَّا يَوْمَئِذٍ وَمَا كُنَّا نَقُولُ إِلَّا الْمُدْيَةُ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

سلیمان کا یہ کہنا کہ مالک میرے مجھ کو ایسی بادشاہت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہوا ۔ اورسورۃ توبہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اور یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس علم کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے ، ، اور سورۃ سبامیں فرمایا ” ( ہم نے ) سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو ( تابع ) کر دیاکہ اس کی صبح کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور اس کی شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور قطر یعنی ہم نے ان کے لئے لوہے کا چشمہ بہا دیا ( واسلنالہ عین القطر بمعنی ) واذبنالہ عین الحدید ہے ” اور جنات میں کچھ وہ تھے جو ان کے آگے ان کے پروردگار کے حکم سے خوب کام کرتے تھے ، ، آخر آیت من محاریب تک ۔ مجاہد نے کہا کہمحاریب وہ عمارتیں جو محلوں سے کم ہوں تماثیل تصویریں اور لگن اورجواب یعنی حوض جیسے اونٹوں کے لئے حوض ہوا کر تے ہیں ” اور ( بڑی بڑی ) جمی ہوئی دیگیں ، ، آیت الشکور تک ۔ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کردیا تو کسی چیز نے ان کی موت کا پتہ نہ دیا بجزایک زمین کے کیڑے ( دیمک ) کے کہ وہ ان کے عصا کو کھا تا رہا ، سو جب وہ گر پڑے تب جنات نے جانا کہ وہ مر گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان المہین ، ، تک ” سلیمان علیہ السّلام کہنے لگے کہ میں اس مال کی محبت میں پروردگار کی یاد سے غافل ہو گیا ، ، فطفق مسحا الخیعنی اس نے گھوڑوں کی ایال اوراگاڑی پچھاڑی کی رسیوں پر ہا تھ پھیرنا شروع کر دیا ۔ الاصفاد بمعنی الوثاق بیڑیاں زنجیریں ۔ مجاہد نے کہا کہ الصافنات ، صفن الفرسسے مشتق ہے ، اس وقت بولتے ہیں جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر کھر کی نوک پر کھڑا ہو جائے ، ، الجیاد یعنی دوڑنے میں تیز ۔ جسدا بمعنی شیطان ، ( جو حضرت سلیمان علیہ السّلام کی انگوٹھی پہن کر ان کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا ۔ ) رخاءنرمی سے ، خوشی سے ۔ حیث اصاب یعنی جہاں وہ جانا چاہتے فامنن اعط کے معنی میں ہے ، جس کو چاہے دے بغیر حساب بغیر کسی تکلیف کے ، بے حرج ۔تشریح : فطفق الخ کی یہ تفسیر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کی ہے وہ گھوڑوں کا ملاحظہ فرمانے لگے۔ اکثر مفسرین نے یہ معنی کئے ہیں کہ ان کے پاؤں اور گردنیں تلوار سے کاٹنے لگے۔ چونکہ ان کے دیکھنے میں عصر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔

3427.

پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دو عورتیں تھیں، جن کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے۔ بھیڑیا آیا اور ان میں سے ایک کے بچے کو اٹھا کر لے گیا۔ اس کی سہیلی نے کہا: بھیڑیا تیرے بچے کو لے گیا ہے۔ دوسری بولی: نہیں، وہ بھیڑیا تیرابچہ لے گیا ہے۔ پھر دونوں حضرت داود ؑ کے پاس مقدمہ لے کر گئیں اور انھیں واقعہ سے مطلع کیا تو انھوں نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ د ے دیا۔ پھر وہ حضرت سلیمان ؑ کے پاس آئیں اور ان سے واقعہ عرض کیا تو انھوں نے کہا: میرے پاس چھری لاؤ تاکہ میں بچے کے دو ٹکڑے(کرکے ان کے درمیان تقسیم) کردوں۔ چھوٹی نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے! آپ ایسا نہ کریں۔ یہ اسی کا بیٹا ہے (اس کو دے دیں)۔ تب حضرت سلیمان ؑ نے اس (بچے) کافیصلہ چھوٹی کے حق میں کردیا۔‘‘ حضرت ابوہریرۃ  ؓنے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اس دن چھری کا نام سکین سنا تھا۔ ہم اسے "مدیة" کہا کرتے تھے۔