تشریح:
1۔ ابن عباس ؓ کا مطلب ہے کہ لفظ حطیم دور جاہلیت کی یادگار ہے اہل جاہلیت جو کچھ کرتے تھے یہ حطیم اس پر دلالت کرتا ہے وہ اپنا کوڑا، جوتا اور کمان وغیرہ اس میں پھینک کر قسم اٹھاتے تھے اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتے تو دنیا میں چکنا چور ہو جاتے، اس وجہ سے لوگ اسے حطیم کہتے ہیں
2۔غالباً حضرت ابن عباس ؓ نے اس لیے یہ نام استعمال کرنے سے کراہت محسوس کی ان کی کراہت کی بنیاد اہل جاہلیت کو کردار اور عقیدہ تھا جو اب متروک ہو چکا ہے۔ ویسے حطیم بیت اللہ کا حصہ ہے قریش نے کم مائیگی کی وجہ سے اس پر چھت نہیں ڈالی تھی، اس لیے طواف اس کے پیچھے سے ہی کرنا چاہیے۔