تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ نے مدینے کے مشرقی جانب والے شہروں کا قبلہ بتایا ہے جب کہ مغربی جانب والوں کا بھی قبلہ یہی ہے۔ اس کے متعلق ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ یہاں مشرق کا ذکر اکتفا کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ مراد مشرق ومغرب دونوں ہیں، یعنی أحد المتقابلین کے ذکر پر اکتفا کرلیا یا اس لیے صرف مشرق کاذکر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر اسی جانب تھی، مغرب میں اتنے مسلمان نہیں تھے۔ (شرح ابن بطال:55/2) 2۔ امام بخاری ؒ نے جس حدیث کو مدار استدلال بنایا ہے اس میں یہ ہے کہ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت نہ کرو اور نہ پشت ہی اس طرف کرو بلکہ قضائے حاجت کرتے وقت مشرق یامغرب کی طرف منہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا مدینہ منورہ اور اس کے مشرق ومغرب میں واقع شہروں کا قبلہ جنوب ہے۔ اس لیے ان کے لیے جنوب کی جہت بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے نہ پشت۔ ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے مشرقی شہروں کےعلاوہ جو شہر مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ہیں ان کا قبلہ بھی جنوب یا شمال ہے مشرق ومغرب نہیں، لہذا ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جو کعبے کی’’سیدھ‘‘ میں مشرق سے مغرب تک واقع ہیں، ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں۔ (شرح ابن بطال:54/2) اب اگرامام بخاریؒ کی مراد صرف اہل مدینہ، اہل شام اور مدینے سے مشرق کی طرف والے بلادعرب ہوں تو بات صاف ہے اور اگرابن بطال والی توجیہ مراد ہوتو بھی کوئی حرج نہیں کہ مشرق ومغرب سے مراد مشرق ومغرب کی تمام سمتیں ہوسکتی ہیں۔ ٹھیک درمیانی خط مشرق اور خط مغرب کو چھوڑ کر جنوب وشمال کی طرف تھوڑا سا انحراف بھی بول وغائط کے وقت کافی ہے اور یہی تشریق وتغریب ہے جس میں خانہ کعبہ کی تعظیم کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ چونکہ ٹھیک درمیانی خط والے بہ نسبت دوسروں کے بہت کم لوگ ہیں ان کی طرف گویا اس عام حکم میں کچھ تعرض نہیں کیا گیا۔ اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ توجہ الی الکعبہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے لوگوں کی مثال مرکز کے گرد دائرے کی ہے۔ اب جو شخص کعبے سے مغربی جانب ہے اس کا قبلہ مشرق ہوگا اور جو مشرق کی جانب ہے اس کا قبلہ مغرب ہوگا۔ اگرروئے زمین کو دائرہ خیال کیاجائے توظاہر ہے کہ محیط کی طرف وسعت اورپھیلاؤ اور مرکز کی جانب تنگی اور سمٹاؤ ہوگا۔ انحراف کی صورت میں جہت قبلہ سے وہ انحراف مانا جائے گا جو ربع دائرہ کے بقدر ہو، کیونکہ کسی بھی دائرے کا مرکز سے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ربع تک ہی ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں خواہ مرکز سے جوانب دائرہ تک فاصلہ ایک میل ہو یا ہزاروں میل کا۔ اس بنا پر کعبے سے اوجھل نماز پڑھنے والے کا شرعی حکم ایک ہی رہے گا، خواہ وہ کعبے سے کتنے ہی فاصلے پر ہو کہ دائرہ کے چوتھائی (نوے درجے) سے کم انحراف ہوتواس کی نماز درست ہواور نوے درجے یا زیادہ کا انحراف ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔ یعنی کعبے سے 45 درجے تک دائیں طرف اور اتنا ہی بائیں طرف انحراف کا جواز ہے۔ واللہ أعلم۔