تشریح:
1۔ ان احادیث کا مرکزی عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ مختلف آقاؤں کے غلام رہنے اور اپنے وطن مالوف سے ہجرت کرنے کے بعد مسلمان ہوئے۔ وہ فارس کے شہر رام ہرمز کے رہنے والے تھے۔ دین حق کی طلب میں انھوں نے وطن چھوڑا۔ پہلے عیسائی ہوئے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا، پھر قوم عرب نے انھیں گرفتار کرکے یہودیوں کے ہاں فروخت کردیا یہاں تک کہ وہ مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔ رسول اللہ ﷺ سے پہلی مجلس میں دولتِ ایمان سے مالا مال ہوئے۔ انھوں نے اپنے یہودی آقا سے مکاتبت کی جس کی رقم خود رسول اللہ ﷺ نے ادا فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ ان سے بہت خوش تھے۔ حضرت علی ؓ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’سلما ن فارسی ہمارے اہل بیت سے ہیں۔‘‘ (المصنف لابن أبي شیبة: 148/12، و سلسلة الأحادیث الضعیفة:179/8، رقم 3704) انھوں نے بہت طویل عمر پائی۔ 36ہجری کو مدائن میں فوت ہوئے۔ 2۔ "فترت" کے معنی انقطاع ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس سے وہ مدت مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول نہ آیا ہو۔صحیح احادیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور حضرت عیسیٰ ؑ کا درمیانی عرصہ زمانہ فترت کہلاتا ہے جو بقول حضرت سلمان فارسی ؓ چھ سو سال ہے۔ عرب کے ہاں یہ طریقہ رائج ہے کہ کسر کو حذف کرکے پورا عدد ذکر کردیتے ہیں، جیسا کہ اس مقام پ ایسا ہوا ہے کیونکہ زمانہ فترت پانچ سوسال سے زیادہ اور چھ سوسال سےکم ہے۔ عرب میں کسر کوپورا کرنے یااسےحذف کردینے کا طریقہ جاری وساری ہے۔ 3۔ حافظ ا بن حجر ؒ نے ان احادیث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ غلامی کی لمبی زندگی گزارنے کے بعد اور وطن سے ہجرت کرکے لمبی مدت تک حق کی تلاش میں رہے۔ بالآخر انھوں نے اس گوہر نایاب کوپالیا اور اسلام کی دولت سے شرف یاب ہوئے۔رضي اللہ عنه وأرضاہ۔