تشریح:
ہوا یوں کے رسول اللہ ﷺ بدر کے دن ابوسفیان کا قافلہ لوٹنے کے لیے لوگوں کو ہمراہ لے کر مدینہ طیبہ سے نکلے تھے۔ وادی صفراء میں جا کر پتہ چلا کہ ابوسفیان اپنے قافلے کے ہمراہ محفوظ طریقے سے نکل چکا ہے اور قریش نے مقام بدر کا ارادہ کیا ہے اور وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ ایسے حالات میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کیا۔حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے یکے بعد دیگرے آپ کو یقین دلایا، چونکہ یہ پہلی لڑائی تھی اورانصار سے معاہدہ نصرت وتحفظ کاتھا، وہ بھی مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے۔ یہ نہیں تھا کہ وہ مدینے سے باہردشمنوں سے جنگ لڑیں گے، اس لیے آپ انصار کی طرف سے اظہار جذبات کے منتظر تھے۔ آپ نے فرمایا: لوگو!مجھے مشورہ دو، اس سے مقصود انصار تھے اور یہ بات انصار کے کمانڈر حضت سعد بن معاذ ؓ نے بھانپ لی، چنانچہ انھوں نے عرض کی، اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا جو بھی ارادہ ہو آپ اس کے مطابق پیش قدمی کریں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگرآپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی اس سے پیچھے نہیں رہے گا۔ حضرت سعد ؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور آپ پر نشاط طاری ہوئی۔ (فتح الباري:359/7)