تشریح:
1۔ ابورافع یہودی کی اہل اسلام کے خلاف خباثتیں انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔ وہ ہروقت رسول اللہ ﷺکی ہجو کرتا تھا۔ ایسے حالات میں اسے قتل کرنا ضروری ہوگیا تھا۔ آخر کار رسول اللہ ﷺنے چند خزرجی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی خواہش پر حضرت عبداللہ بن عتیک ؓ کی قیادت میں پانچ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس کے قتل پر مامور کیا۔ انھوں نے اس بدطینت کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کیا۔ پہلی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی پنڈلی ٹوٹ جانے کا ذکرتھا جبکہ دوسری حدیث میں پاؤں کا جوڑ کھل جانے کا بیان ہے؟ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ پنڈلی بھی ٹوٹی تھی اور پاؤں کا جوڑ بھی کھلا تھا۔ ان دونوں احادیث میں مختلف طرق سے ابورافع یہودی کے قتل کا بیان ہے۔
2۔ واضح رہے کہ ابورافع خیبر کے جس قلعے میں رہتا تھا وہ سرزمین حجاز کے قریب تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کر تکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قلعے میں تھا۔ یہ ممکن ہے کہ پہلے وہ حجاز میں رہ کرتکلیفیں دیا کرتا تھا، پھر جلاوطنی کے بعد خیبر چلا گیا اور قتل کے وقت وہ اسی قعلے میں تھا۔ یہ ممکن ہے کہ اس کا ایک مکان خیبر میں ہو اوردوسراحجاز میں۔ بہرحال قتل کے وقت وہ خیبر کے قلعے میں تھا۔
3۔ ابورافع کے دو بھائی بھی تھے: ایک تو کنانہ جو حضرت صفیہ ؓ کا خاوند تھا اور دوسرا ربیع بن ابی الحقیق۔ ان دونوں کو فتح خیبر کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ (فتح الباري:427/7) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ان دونوں سرداروں کے قتل سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین کے حالات کا تجسس کرناجائز ہے۔ اور جب ان کی ایذارسانی حد سے بڑھ جائے توان کی بے عزتی کرنا اور انھیں اچانک قتل کرناجائز ہے نیز کسی کافر کو اپنے کفر پراصرار ہوتو ایسے لوگوں کو قبل از قتل دعوت دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ (فتح الباري:431/7)