تشریح:
رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی کہ ابوسفیان اور اس کا لشکر جب مقم روحاء تک پہنچا توانھوں نے واپس آنے کا ارادہ کرلیا ہے تاکہ مسلمانوں کو مزید نقصان پہنچائیں، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اعلان فرمایا ان کا تعاقب کرنا چاہیے تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کو زخموں نے کمزور نہیں کیا اور نہ وہ دشمن کی طلب میں سست ہی ہوئے ہیں۔ ستر مسلمانوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دشمن کا تعاقب کیا۔ جب وہ مقام حمراء الاسد پر پہنچے تو معبد خزاعی نے ابوسفیان سے کہا کہ پہلی فوج سے بھی زیادہ لوگ تمہارے تعاقب میں آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان اور اس کے لشکر پر رعب ڈال دیا، پھر انھوں نے اُحد واپسی کا پروگرم ترک کرکے مکہ کا رخ کرلیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار مکہ کا تعاقب کرنے والوں میں حضرت ابوبکر ؓ، اورحضرت زبیر ؓ کے علاوہ حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عمار بن یاسر ؓ، حضرت طلحہ ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح ؓ، حضرت حذیفہ ؓ، اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی تھے، اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں ان حضرات کی مدح سرائی کی ہے۔ (فتح الباري:467/7)