تشریح:
1۔ اس آیت میں کفارکی اتحادی فوجوں کی لشکر کشی کا بیان ہے کہ کفار غطفان جو مدینے سے مشرقی جانب ہیں انھوں نے مسلمانوں پر اوپر کی جانب سے اورنیچے کی جانب مغرب کی طرف سے کفار قریش نے حملہ کیا، یعنی اتحادی کافروں نے مسلمانوں کو گھیرمیں لیا تھا۔ ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ تین ہزار فوجیوں کو لے کر ان کے مقابلے کے لیے نکلے اور اپنی پشتیں سلع پہاڑ کی طرف کر لیں تاکہ پیچھے سے کوئی حملہ آور نہ آئے۔ اپنے کفار کے درمیان خندق کھدوا دی، عورتوں اور بچوں کو ٹیلوں پر محفوظ جگہ میں رکھا تقریباً پچیس دن مدینے کا محاصرہ رہا حتی کہ اللہ تعالیٰ نے سرد ہوا چھوڑی تو کفار کی اتحادی فوجیں منتشر ہو کر بھاگ نکلیں
2۔ اس جنگ کا آغاز اس طرح ہوا کہ غزوہ احد کے بعد غزوہ بنو نضیر پیش آیا جس کے نتیجے میں یہودیوں کو مدینے سے نکال دیا گیا اور انھوں نے خیبر میں جا کر پناہ لے لی۔ انھی جلا وطن کیے ہوئے یہودیوں میں سے بیس افراد پر مشتمل ایک وفد قریش مکہ کے پاس آیا اور انھیں مسلمانوں پر ایک اجتماعی اور کاری ضرب لگانے کی ترغیب دی۔ کفار مکہ نے یہودی وفدکی اس تجویز سے اتفاق کیا۔ اس کے بعد یہ وفدغطفان کے پاس گیا۔ یہ قبیلہ چونکہ پہلے ہی یہود کا حلیف تھا، لہٰذا وہ بھی فوراً تیار ہو گیا۔ بعد ازاں یہ وفد دوسرے مسلمان دشمن قبائل کے پاس گیا حتی کہ تمام اسلام دشمن عناصر کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کر لیا، چنانچہ ذی قعدہ 5 ہجری میں جنوبی اطراف سے ابو سفیان کی سرکردگی میں کفار قریش کنانہ اور تہامہ میں آباد دوسرے حلیف قبائل کا چار ہزار افراد پر مشتمل لشکر مدینے کی طرف روانہ ہوا۔ مراالظہران کے مقام پر بنو سلیم کے ذیلی قبائل بھی ابو سفیان کے لشکر سے آکر مل گئے۔ مشرقی اطراف سے غطفانی قبائل فزارہ، حرہ اور اشجع بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے۔ اس طرح مدینے تک پہنچتے پہنچتے اس لشکر کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی جبکہ مدینے کی کل آبادی بھی دس ہزار سے کم تھی۔ اس میں سے جنگجو افراد صرف تین ہزار تھے اور ان تین ہزار میں منافقین بھی شامل تھے اگر مسلمانوں نے خندق کھود کر بروقت اپنا دفاع نہ کر لیا ہوتا تو یہ بہت بڑا لشکر مسلمانوں کو ایک ہی حملے میں نیست و نابود کرنے کے لیے کافی تھا ایسے حالات میں مذکورہ بالا آیت کا نزول ہوا۔ واللہ اعلم۔