تشریح:
1۔ مشرق سے چلنے والی ہوا کو صبا اور مغرب سے چلنے والی ہوا کو دبورکہتے ہیں۔
2۔ جب کفار نے مدینہ طیبہ کا محاصرہ کیا تھا تو بادصبا چلی تھی۔ جس کی تاب نہ لا کر کفار بھاگ نکلے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اس ہوا کا ذکر کیا ہے: ’’جب لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیے جو تمھیں نظر نہ آتے تھے۔‘‘ (الأحزاب:9/33) یہ ہوا بے انتہا ٹھنڈی اور اتنی تیز تھی کہ اس نے کفار کے خیمے اکھاڑدیے۔ گھوڑوں کے رسے ٹوٹ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئےہنڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں وہ اتنی ٹھنڈی تھی کہ بدن کو چیرتی اور آر پار ہوتی معلوم ہوتی تھی۔ اس سے کفار کے لشکر میں بدحواسی پھیل گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ جس کے نتیجے میں وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ (فتح الباري:502/7) حضرت ابو سعید خدری ؓ کا بیان ہے کہ وہ خندق کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہمارے دل گھبراہٹ کی وجہ سے حلق تک آگئے ہیں آپ ہمیں کوئی دعا بتائیں جو ہم پڑھیں تو آپ نے یہ دعا سکھائی: (اللَّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوَرَاتِنَا ، وَآمِنْ رَوَعَاتِنَا) ’’اے اللہ!پردہ پوشی فرما اور ہمیں گھبراہٹ سے امن عطا کر۔‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے کفار پر سخت ٹھنڈی اور نتہائی تیز ہوا مسلط کردی جس کی تاب نہ لا کر وہ میدان چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ (مسند احمد:3/3)