تشریح:
1۔ مقام حدیبیہ میں جو دفعات صلح طے ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ قریش کا جو آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمد ﷺ کے پاس جائے گا وہ اسے واپس کردیں گے لیکن محمد ﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس آئے گا وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔ ابھی صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں ہوئی تھی کہ سہیل نے بیٹے ابوجندل ؓ اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے وہاں آپہنچے، انھوں نے خود کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ اس پر سہیل نے کہا: یہ پہلا شخص ہے جس کی واپسی کا میں مطالبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابھی تو ہم نے صلح نامے کی تحریر مکمل نہیں کی۔‘‘ بہرحال سہیل کے اصرار پر ابوجندل ؓ کو واپس کردیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں فرمایا: ’’ابوجندل! صبر کرو اور اسے باعث ثواب خیال کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ پیدا کرے گا۔ ہم نے چونکہ قریش سے صلح کرلی ہے۔ اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔‘‘
2۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ ایماندار عورتیں ہجرت کر کے مدینے آئیں تو ان کے گھر والوں نے معاہدے کی رو سے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن رسول اللہ ﷺ نے یہ مطالبہ اس دلیل کی بنیاد پر مستردکردیا کہ واپسی کی دفعہ کا اطلاق مردوں پر ہوتا ہے عورتوں پر نہیں کیونکہ اس کے الفاظ یہ تھے: ’’ہماری جو آدمی آپ کے پاس آجائےگا آپ اسے لازمی طور پر واپس کردیں گے خواہ وہ آپ ہی کےدین پر کیوں نہ ہو۔‘‘ نیز قرآن کریم میں صراحت ہے کہ اگر تمھیں معلوم ہوجائے کہ وہ عورتیں فی الواقع ایماندار ہیں تو انھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ کافر ہی ان کےلیے حلال ہیں۔ (الممتحنة:10/60) اس سے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، لہذا ام کلثوم ؓ سمیت دوسری مہاجر عورتیں واپس نہیں کی گئیں۔
3۔ صلح حدیبیہ کی تفصیلات اورحضرت ابوبصیر ؓ کا واقعہ جاننے کے لیے صحیح بخاری حدیث 2732 کا مطالعہ کریں۔