تشریح:
1۔ پہلے باب میں تھا کہ حسن اسلام مطلوب ہے اور اس باب میں فرمایا کہ وہ حسن مطلوب، دوام عمل میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں حسن، اعمال سے آتا ہے مگر وہ اعمال اس درجے میں نہ ہوں کہ ان میں زبردستی کی جائے بلکہ اس حد تک مطلوب ہیں کہ ان پر دوام ہوسکے۔ اعمال اتنے زیادہ نہ ہوں کہ دل کی تنگی کی بنا پر ان کے چھوڑنے تک نوبت پہنچ جائے۔ اللہ کے ہاں مقدار نہیں، معیار کی قدروقیمت ہے۔
2۔ اس سے مراد بھی مرجیہ کی تردید ہے کہ یہاں اعمال پر دین کا اطلاق کیا گیا ہے۔ پھر اعمال کی مطلوبیت تو مسلم ہے لیکن مزید ان اعمال پر دوام واستمرار بھی مطلوب ہے۔اب جو عمل ہی کو دین نہ مانتا ہو وہ دوام عمل کو کیا مانے گا۔
3۔ عمل خیر پرمداومت دولحاظ سے پسندیدہ ہے:
(الف)۔ اس سے انسان کی بندگی اور غلامی کا اظہار ہوتا ہے۔ اگرجوش میں آکر بڑاکام شروع کردیا لیکن چند دنوں کے بعد اسے ترک کردیا تو اس میں آقا کی ناراضی کااندیشہ ہے۔ گویا غلام نے آقا سے روگردانی کی ہے۔
(ب)۔ اس سے خدمت گزاری کا اظہار بھی ہوتا ہے جیسے ایک شخص روزانہ شاہی دربار میں حاضری دیتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن آقا کے ہاں لائق التفات ہوگا، برعکس اس انسان کے جوصرف ایک دن آیا اوردربار میں پورا وقت حاضر رہا، وہ آقا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 138/1)
4۔ معلوم ہوا کہ شدید مجاہدات کا انجام اچھا نہیں ہوگا کیونکہ چند دنوں کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونے لگے گی جو بوقت عمل گھبراہٹ اور تنگی دل کا باعث ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ عمل خیر کو چھوڑ دیا جائے گا یا بد دلی اور بے رغبتی سے جاری رکھے گا۔ یہ دونوں حالتیں ہی مذموم ہیں، اس لیے حدیث میں ہے کہ اللہ کے ہاں وہی عمل پسندیدہ ہے جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6484)
5۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ اگرصبح کی نماز باجماعت فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تہجد پراصرار درست نہیں ہے۔ جمہور نے اسی بنا پر تمام رات نوافل پڑھنے کو مکروہ خیال کیا ہے اگرچہ سلف کی ایک جماعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے اگر نماز صبح کے فوت ہونے کا خطرہ ہوتو اس قسم کے عمل خیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (عمد ۃ القاری: 380/1)