Sahi-Bukhari
2. Belief
34. Chapter: Ad-Din (good, righteous deed - act of worship) loved most by Allah Jalla Jalalahu is that which is done regularly. (And in fact the best religion with Allah is Islam)
باب:اللہ کو دین( کا) وہ (عمل)سب سے زیادہ پسند ہے جس کو پابندی سے کیا جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: Ad-Din (good, righteous deed - act of worship) loved most by Allah Jalla Jalalahu is that which is done regularly. (And in fact the best religion with Allah is Islam))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
43.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ ان کے پاس تشریف لائے، وہاں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے پوچھا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: یہ فلاں عورت ہے اور اس کی (کثرت) نماز کا حال بیان کرنے لگیں۔ آپ نے فرمایا: ’’رک جاؤ! تم اپنے ذمے صرف وہی کام لو جو (ہمیشہ) کر سکتے ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتاتا، تم ہی عبادت کرنے سے تھک جاؤ گے۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب، اطاعت کا وہ کام ہے جس کا کرنے والا اس پر ہمیشگی کرے۔‘‘
تشریح:
1۔ پہلے باب میں تھا کہ حسن اسلام مطلوب ہے اور اس باب میں فرمایا کہ وہ حسن مطلوب، دوام عمل میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں حسن، اعمال سے آتا ہے مگر وہ اعمال اس درجے میں نہ ہوں کہ ان میں زبردستی کی جائے بلکہ اس حد تک مطلوب ہیں کہ ان پر دوام ہوسکے۔ اعمال اتنے زیادہ نہ ہوں کہ دل کی تنگی کی بنا پر ان کے چھوڑنے تک نوبت پہنچ جائے۔ اللہ کے ہاں مقدار نہیں، معیار کی قدروقیمت ہے۔ 2۔ اس سے مراد بھی مرجیہ کی تردید ہے کہ یہاں اعمال پر دین کا اطلاق کیا گیا ہے۔ پھر اعمال کی مطلوبیت تو مسلم ہے لیکن مزید ان اعمال پر دوام واستمرار بھی مطلوب ہے۔اب جو عمل ہی کو دین نہ مانتا ہو وہ دوام عمل کو کیا مانے گا۔ 3۔ عمل خیر پرمداومت دولحاظ سے پسندیدہ ہے: (الف)۔ اس سے انسان کی بندگی اور غلامی کا اظہار ہوتا ہے۔ اگرجوش میں آکر بڑاکام شروع کردیا لیکن چند دنوں کے بعد اسے ترک کردیا تو اس میں آقا کی ناراضی کااندیشہ ہے۔ گویا غلام نے آقا سے روگردانی کی ہے۔ (ب)۔ اس سے خدمت گزاری کا اظہار بھی ہوتا ہے جیسے ایک شخص روزانہ شاہی دربار میں حاضری دیتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن آقا کے ہاں لائق التفات ہوگا، برعکس اس انسان کے جوصرف ایک دن آیا اوردربار میں پورا وقت حاضر رہا، وہ آقا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 138/1) 4۔ معلوم ہوا کہ شدید مجاہدات کا انجام اچھا نہیں ہوگا کیونکہ چند دنوں کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونے لگے گی جو بوقت عمل گھبراہٹ اور تنگی دل کا باعث ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ عمل خیر کو چھوڑ دیا جائے گا یا بد دلی اور بے رغبتی سے جاری رکھے گا۔ یہ دونوں حالتیں ہی مذموم ہیں، اس لیے حدیث میں ہے کہ اللہ کے ہاں وہی عمل پسندیدہ ہے جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6484) 5۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ اگرصبح کی نماز باجماعت فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تہجد پراصرار درست نہیں ہے۔ جمہور نے اسی بنا پر تمام رات نوافل پڑھنے کو مکروہ خیال کیا ہے اگرچہ سلف کی ایک جماعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے اگر نماز صبح کے فوت ہونے کا خطرہ ہوتو اس قسم کے عمل خیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (عمد ۃ القاری: 380/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
43
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
43
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
43
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
43
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺ ایک مرتبہ ان کے پاس تشریف لائے، وہاں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے پوچھا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے کہا: یہ فلاں عورت ہے اور اس کی (کثرت) نماز کا حال بیان کرنے لگیں۔ آپ نے فرمایا: ’’رک جاؤ! تم اپنے ذمے صرف وہی کام لو جو (ہمیشہ) کر سکتے ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں اکتاتا، تم ہی عبادت کرنے سے تھک جاؤ گے۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب، اطاعت کا وہ کام ہے جس کا کرنے والا اس پر ہمیشگی کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ پہلے باب میں تھا کہ حسن اسلام مطلوب ہے اور اس باب میں فرمایا کہ وہ حسن مطلوب، دوام عمل میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں حسن، اعمال سے آتا ہے مگر وہ اعمال اس درجے میں نہ ہوں کہ ان میں زبردستی کی جائے بلکہ اس حد تک مطلوب ہیں کہ ان پر دوام ہوسکے۔ اعمال اتنے زیادہ نہ ہوں کہ دل کی تنگی کی بنا پر ان کے چھوڑنے تک نوبت پہنچ جائے۔ اللہ کے ہاں مقدار نہیں، معیار کی قدروقیمت ہے۔ 2۔ اس سے مراد بھی مرجیہ کی تردید ہے کہ یہاں اعمال پر دین کا اطلاق کیا گیا ہے۔ پھر اعمال کی مطلوبیت تو مسلم ہے لیکن مزید ان اعمال پر دوام واستمرار بھی مطلوب ہے۔اب جو عمل ہی کو دین نہ مانتا ہو وہ دوام عمل کو کیا مانے گا۔ 3۔ عمل خیر پرمداومت دولحاظ سے پسندیدہ ہے: (الف)۔ اس سے انسان کی بندگی اور غلامی کا اظہار ہوتا ہے۔ اگرجوش میں آکر بڑاکام شروع کردیا لیکن چند دنوں کے بعد اسے ترک کردیا تو اس میں آقا کی ناراضی کااندیشہ ہے۔ گویا غلام نے آقا سے روگردانی کی ہے۔ (ب)۔ اس سے خدمت گزاری کا اظہار بھی ہوتا ہے جیسے ایک شخص روزانہ شاہی دربار میں حاضری دیتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن آقا کے ہاں لائق التفات ہوگا، برعکس اس انسان کے جوصرف ایک دن آیا اوردربار میں پورا وقت حاضر رہا، وہ آقا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ (فتح الباري: 138/1) 4۔ معلوم ہوا کہ شدید مجاہدات کا انجام اچھا نہیں ہوگا کیونکہ چند دنوں کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونے لگے گی جو بوقت عمل گھبراہٹ اور تنگی دل کا باعث ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ عمل خیر کو چھوڑ دیا جائے گا یا بد دلی اور بے رغبتی سے جاری رکھے گا۔ یہ دونوں حالتیں ہی مذموم ہیں، اس لیے حدیث میں ہے کہ اللہ کے ہاں وہی عمل پسندیدہ ہے جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6484) 5۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ اگرصبح کی نماز باجماعت فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تہجد پراصرار درست نہیں ہے۔ جمہور نے اسی بنا پر تمام رات نوافل پڑھنے کو مکروہ خیال کیا ہے اگرچہ سلف کی ایک جماعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو دیکھتے ہوئے اگر نماز صبح کے فوت ہونے کا خطرہ ہوتو اس قسم کے عمل خیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (عمد ۃ القاری: 380/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے ہشام کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں مجھے میرے باپ (عروہ) نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کی کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ان کے پاس آئے، اس وقت ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی، آپ نے دریافت کیا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا، فلاں عورت اور اس کی نماز (کے اشتیاق اور پابندی) کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ٹھہر جاؤ (سن لو کہ) تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے عمل کی تمہارے اندر طاقت ہے۔ خدا کی قسم (ثواب دینے سے) اللہ نہیں اکتاتا، مگر تم (عمل کرتے کرتے) اکتا جاؤ گے، اور اللہ کو دین (کا) وہی عمل زیادہ پسند ہے جس کی ہمیشہ پابندی کی جا سکے۔ (اور انسان بغیر اکتائے اسے انجام دے۔)‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Once the Prophet (ﷺ) came while a woman was sitting with me. He said, "Who is she?" I replied, "She is so and so," and told him about her (excessive) praying. He said disapprovingly, "Do (good) deeds which is within your capacity (without being overtaxed) as Allah does not get tired (of giving rewards) but (surely) you will get tired and the best deed (act of Worship) in the sight of Allah is that which is done regularly."