تشریح:
1۔ علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں:اس حدیث کی مذکورہ عنوان سے کوئی مناسب نہیں لہٰذا امام بخاری ؒ کو اسے یہاں بیان نہیں کرنا چاہیے تھے کیونکہ حدیث میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کھمبی اس مَن کی قسم ہے جوبنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا۔ (إعلام الحدیث:99/3) لیکن ان کا یہ اعتراض برمحل نہیں کیونکہ بعض روایات میں وضاحت ہے: کھمبی مَن کی قسم ہے جو بنی اسرائیل پر اتارا گیا تھا۔ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث:5345۔ (2049))
2۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کھمبی کا خالص پانی آنکھوں کی تمام بیماریوں کے لیے مفید ہے اگر سرمے میں ملا کر استعمال کیا جائے تو اس کا فائدہ دو چند ہو جاتا۔ شیخ الکمال بن عبد اللہ دمشقی جن کی آنکھوں کا نور ختم ہو چکا تھا جب انھوں نے کھمبی کا پانی بطور سرمہ استعمال کیا تو ان کا نور بصارت واپس آگیا۔ (شرح صحیح مسلم النووي، الأشربة، باب فضل الکماة ومداواة العین بها) یہ خاصیت اس بنا پر ہے کہ اس کی حلت میں ذرا بھر بھی شبہ نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خالص حلال چیز کا استعمال بینائی کے لیے بہت مفید ہے اور حرام اشیاء کا استعمال نظر کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ (فتح الباري:164/8)
3۔ یاد رہے کہ کھمبی ایک خود رد بوٹی ہے جو موسم برسات میں زمین سے اگتی ہےاسے من سے تشبیہ دی گئی کیونکہ جس طرح من بغیر مشقت کے حاصل ہوتا تھا اس طرح کھمبی بھی بغیر محنت کے حاصل ہو جاتی ہےنیز جو من بنی اسرائیل پر نازل ہوا تھا وہ اصل الاصول ہے اسی مادے سے اب یہ کھمبی زمین سے اگتی ہے جو بہت لذیذ اور از حد مفید ہے۔