تشریح:
رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ مدینہ تشریف لائے تویہودیوں کو دیکھا کہ وہ بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے اس کی وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ اس دن یہودیوں کو فرعون سے نجات ملی تھی، اس لیے وہ یوم تشکر کے طور پر اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہم ان کی بنسبت موسیٰ ؑ سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں۔" پھرآپ ﷺ نے اس روزے کی پابندی کی اور دوسروں کو بھی اس کا پابند کیا۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث:2004) اور جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ نے فرمایا: "اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو (عاشوراء کے ساتھ) نویں کا بھی روزہ رکھوں گا (تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو جائے۔)" لیکن عاشوراء سے پہلے آپ فوت ہوگئے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث:2666(1134))