تشریح:
1۔ ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشاء کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کی اجازت تھی۔ سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ پابندی عرب کے لیے بہت گراں اور اس پر عمل انتہائی مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دونوں پابندیاں اٹھا لیں، افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کی اجازت دے دی۔
2۔ رمضان کی راتوں میں اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنے کا حکم لوگوں نے خود اپنے آپ پر عائد کرلیاتھا، پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت تھی اور اس سے یہ اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ سوچ ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے تو اس ضمیر کی خیانت پر تنبیہ فرمائی پھر فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے، لہذا اب اسے بُرا فعل سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب وضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ اسے سرانجام دو۔
3۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ ر مضان کی راتوں میں اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنے کا حکم اللہ کی طرف سے تھا۔ اس میں یہ حکمت تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین باوجود سخت تقاضائے جماع اوربیش بہا مردمی قوت کے وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم مانتے ہوئے سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہتے تھے، یہود کی طرح سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا کے مرتکب نہ ہوتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کو اپنے اختیار کی حد سے نکل کر بھی تسلیم کرتے تھے تاکہ بعد میں آنے والوں پر ان کی شرافت، جان نثاری، وفاداری اور اطاعت گزاری ثابت کی جائے۔ واقعی ایسے حالات میں یہ پابندی بہت صبر آزما تھی لیکن انھوں نے بخوشی اسے قبول کیا۔ بعد میں اللہ تعالیٰ نے انھیں رمضان کی راتوں میں جماع کرنے کی اجازت دے دی۔ واللہ اعلم۔