تشریح:
1۔ ایک روایت میں مزید تفصیل ہے کہ اولاد آدم کو پیدائش کے وقت شیطان اپنی دونوں انگلیوں سے اس کے پہلو میں کچوکا لگاتا ہے لیکن عیسیٰ ابن مریم ؑ اس سے محفوظ رہے۔ اس نے کچوکا لگانے کی کوشش کی لیکن وہ انھیں لگنے کی بجائے پردے میں لگ گیا۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3286) اللہ تعالیٰ نے دیگرانبیاء ؑ کو بھی شیطان کی اس حرکت کے مضر اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مریم اور عیسیٰ ؑ کو کسی مصلحت سے یہ صورت سرے سے پیش ہی نہیں آئی، دوسرے انبیاء ؑ کو شاید پیش تو آئی ہو مگر اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہے۔ رسول اللہﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ان دونوں کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہود نے ان کے متعلق بہت سی افواہیں پھیلائی تھیں اور ان کی تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ حضرات تو ابتدائے ولادت سے تصرف شیطان سے مستثنیٰ قراردیے گئے تھے تو بعد کی زندگی میں یہ شیطانی بہکاوے کا کیسے شکار ہوسکتے ہیں اور منکرات سے تعلق رکھنے والی وہ باتیں کیسے درست ہوسکتی ہیں جو یہود ان مقدس ہستیوں اور پاکیزہ نفوس کے متعلق کہتے ہیں۔ واللہ المستعان۔
2۔ بہرحال اس حدیث میں حضرت مریم ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کی ایک جزوی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس جزوی برتری سے رسول اللہ ﷺ کی کلی فضیلت متاثر نہیں ہوتی کیونکہ آپ تو ساری مخلوق سے افضل ہیں۔
3۔ اگرچہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے ضرور مس کرتا ہے اور کچوکے لگاتا ہے مگرحضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ ماجدہ اس سے مستثنیٰ ہیں، البتہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس سے مستثنیٰ نہ ہو، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ ہرشخص اس مس شیطانی کا اثر قبول کرے یا قبول کرے تو آئندہ چل کروہ برابر باقی بھی رہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ دیگر انبیائے کرام ؑ کی عصمت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ واللہ اعلم۔