تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے چار ہجری میں ان کمزور اور بے بس مسلمانوں کی رہائی کے لیے دعا فرمائی جو مکہ مکرمہ میں کفار قریش کے ظلم وستم کا شکار تھے اور انھیں ہجرت سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ان میں حضرت عیاش بن ابوربیعہ ؓ ابوجہل کے مادری بھائی جبکہ سلمان بن ہشام ؓ اس کے حقیقی بھائی تھے اور ولید بن ولید ؓ حضرت خالد بن ولید ؓ کے بھائی تھے۔
2۔ پہلے رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام لے کر رہائی اور خلاصی کے لیے دعا کی، پھرتمام کمزور مسلمانوں کے لیے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت سے انھیں نجات دی اور ہجرت سے بھی مشرف فرمایا۔
3۔ قبیلہ مضر کے لوگ ان دنوں کافر تھے اور مسلمانوں کو سخت تکلیف دیتے تھے، اس لیے آپ نے ان کے خلاف بد دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں قحط میں مبتلا کردیا۔ بعد میں یہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو تنگ کریں اور انھیں ستائیں تو ان پر قحط سالی اور بیماری کی بد دعا کرنا جائز ہے۔ واللہ اعلم۔