تشریح:
1۔ جن اعمال سے ایمان کی کمی بیشی کا تعلق ہے وہ دو طرح کے ہیں: بدنی، مالی۔ اب تک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بدنی اعمال کا ذکر فرمایا ہے اور اب مالی اعمال کا ذکر فرما رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے عنوان قائم کیا ہے’’زکاۃ، اسلام کا حصہ(رکن) ہے۔‘‘ ترجمۃ الباب میں مذکور آیت کریمہ میں نماز کا بھی ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف زکاۃ کے متعلق عنوان قائم کیا ہے کیونکہ آیت کے دوسرے اجزاء کے متعلق پہلے تراجم قائم کرچکے ہیں۔ جب آیت کریمہ سے زکاۃ، دین کا حصہ معلوم ہوئی تو اسلام اور ایمان کا حصہ خود بخود ثابت ہوگئی۔
2۔ اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جو ایمان کی نشوونما کے لیے اعمال کی ضرورت کے قائل نہیں ہیں جبکہ حدیث میں اخروی فلاح کا مدار اس بات کو بتایا گیا ہے کہ اس میں بیان کردہ اعمال وفرائض میں کمی نہ کی جائے۔ ( عمدۃ القاری 396/1 )
3۔ اس روایت میں اقرار شہادتین کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی چند ایک وجوہات ہیں: (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ یہ مسلمان ہے اور دخول اسلام کے لیے اقرارشہادتین ضروری ہیں۔ (ب) ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر کیا ہو لیکن شہرت کی بنا پر راوی نے اسے بیان نہ کیا ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرائع اسلام کے متعلق بتایا۔ (فتح الباري: 143/1)
4۔ حدیث میں ہے کہ سائل پراگندہ بالوں کی صورت میں حاضرخدمت ہوا۔ اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ طالب علم کی عادات واطوار میں سادگی ہونی چاہیے۔ اسے بناؤسنگھار میں وقت ضائع نہیں کرناچاہیے۔ اس کے اندر حصول علم کی ایک دھن ہو۔ اس کے علاوہ اور کسی چیز کی اسے خبر نہ ہو۔
5۔ دینی معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرنا پھر اہل علم کے حضور زانوئےتلمذ تہ کرنا ایک پسندیدہ عادت ہے۔ ایک طالب علم کے لیے حصول علم کی خاطر اپنا شہر چھوڑنا باعث برکت ہے۔ (عمدۃالقاری 395/1 )