تشریح:
1۔ دراصل منافق لوگ رسول اللہ ﷺ سے مذاق اور استہزاء کے طور پر فضول اور غیر ضروری سوالات کرتے تھے اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اس قسم کے سوالات کی ترغیب دیتے تھے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن حذافہ ؓ نے اپنے باپ کے متعلق سوال کر لیا جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث:93)
2۔ یہ سوالات اور احکام دونوں سے متعلق ہوتے تھے چنانچہ بعض روایات میں اس آیت کا سبب نزول حج کے حکم کو بیان کیا گیا ہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث:3055)
3۔ بہر حال بے معنی اور فضول سوالات کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ ان سے شکوک و شبہات بڑھتے ہیں اور دوسرے احکام میں سختی کا بھی اندیشہ ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تم سے پہلے جو لوگ ہلاک ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء سے بکثرت سوالات کرتے تھے۔ اور ان کے موقف سے اختلاف کرتے تھے۔'' (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث:6113۔(1337))