تشریح:
اس حدیث میں بھی ابن عباس ؓ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا شکوہ کیا ہے کہ میری خیر سگالی کے باوجود وہ مجھ سے منہ موڑتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش نہیں کے میں ان کا مقرب بنوں۔ایسے حالات میں میری بھی یہ خواہش نہیں کہ میں ان کے حق میں اخلاص کا اظہار کروں اور وہ اس کی قدر نہ کریں۔ اگر یہی بات ہےتو پھر میں اپنا وزن، بنوامیہ کے پلڑے میں ڈالتاہوں کیونکہ وہ میرے چچا کے بیٹے ہیں اور میرا ان کی اطاعت کرلینا دوسروں کی اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ نوٹ:۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آسمان کے درخشاں ستارے اور وحی کے چشم دید گواہ ہیں لیکن وہ انسان تھے، فرشتے یا انبیاء ؑ نہیں تھے خواہ حضرت ابن عباس ؓ یا عبداللہ بن زبیر ؓ دونوں ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ان کے آپس میں جھگڑوں کے متعلق خاموشی اختیار کرنے میں ہمارے لیے عافیت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بہترین نمونہ ہیں۔ ان سے اہل صفین کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا، اب میں نہیں چاہتا ہوں کہ اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔‘‘ (موافقات للشاطبي:320/4) اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان حضرات کے لیے ان الفاظ میں دعا کرنے کا حکم دیاہے: "اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کے بارے میں ہمارے دل میں کینہ نہ ڈال۔ اے ہمارے پروردگار! بے شک تو شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔" (الحشر:10/59)