تشریح:
1۔ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمھیں بوقت ضرورت بدن کھولنے میں اللہ تعالیٰ سے شرم آتی ہے اور اس طرح جھکے جاتے ہو تو کیا جس وقت تم کپڑے اُتارتے اور پہنتے ہوتو اس وقت تمہارا ظاہر اور باطن اللہ کے سامنے نہیں ہوتا؟ جب انسان اللہ تعالیٰ سے کسی وقت بھی چھپ نہیں سکتا تو پھر ضرورت بشریہ سے متعلق اس قدر تشدد سے کام لینا درست نہیں، تمہاراشرم وحیاء کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھاہے لیکن اس میں غلو صحیح نہیں، اس لیے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر وہ نہیں چھپ سکتے تو پھر اس طرح کے تکلفات کا کیا فائدہ؟
2۔ واضح رہے کہ مشہور قراءت(يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ) ہے لیکن حضرت ابن عباس ؓ نے اسے(تَثْنَوْنِي صُدُورُهُمْ) پڑھاہے ۔اسے علم قراءت میں "قراءۃ شاذہ" کا نام دیاجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔