تشریح:
1۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ؓ سفر تبوک میں جب حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ ان کے کنوؤں سے پانی نہ پئیں اور نہ ڈول بھریں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: ہم نے تو آٹا گوندھ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ نے فرمایا:’’آٹا پھینک دو اور پانی بہادو۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3378) ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے وہ آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی اور آپ نے حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی پلاؤ جس سے اونٹنی پانی پیتی تھی، (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3379) پھر آپ نےچادر سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث:3380)
2۔ ان واقعات سے یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر مشرکین مکہ بھی قوم ثمود کی ڈگر پر چل رہے ہیں تو ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے، لہٰذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں مناسب وقت آنے پر اللہ تعالیٰ ان سے نمٹ لے گا۔ واللہ المستعان۔