تشریح:
1۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی عرض کی کہ میرا یہ جواب دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کو نہ بتائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر کسی نے پوچھ لیا تو اس جواب کو چھپاؤں گا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت گیر اور ترش مزاج بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے سہل پسند اور معلم بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث:3690۔(1478)) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیت دوسری ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے سامنے پڑھی تو ہر ایک نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور معیت سے ہر ایک دل نور ایمان سے منور تھا وہ دنیا اور اس کی زیب و زینت کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کیسے ترجیح دے سکتی تھیں چنانچہ کسی نے بھی دنیا کو ترجیح نہ دی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔
2۔ واضح رہے کہ بیوی کو محض اختیار دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک وہ طلاق کا انتخاب نہ کر لے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیار دیا تو ہم نے آپ کا انتخاب کر لیا تو صرف اختیار دینے کو طلاق شمار نہیں کیا گیا۔ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث:3687۔(1477))