تشریح:
1۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خاندانی حیثیت بہت بلند تھی جبکہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بظاہر غلامی کا داغ اٹھا کر آزاد ہوئے تھے اس لیے مزاج کی موافقت نہ ہو سکی اور نہ معاشرتی تفاوت ہی ذہنوں سے اتنی جلدی دور ہو سکا اور سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ احترام نہ کر سکیں جو انھیں کرنا چاہیے تھا جب ان میں ناچاقی کا سلسلہ شروع ہوا تو سیدنا زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے اور کہتے کہ میں اسے طلاق دے کر فارغ کرنا چاہتا ہوں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہر بار یہی سمجھاتے کہ جب اس عورت نے اپنی خواہش قربان کر کے تم سے نکاح کر لیا ہے تو تمھیں بھی کچھ برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اب اسے طلاق دینے کو وہ اور اس کے عزیز واقارب اپنی ذلت خیال کریں گے تم اللہ سے ڈرو اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر بگاڑکی صورت نہ پیدا کرو۔ لیکن جب بار بار شکایات کا سلسلہ شروع ہوا تو ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال آیا ہوکہ اگر زید نے حضرت زینب کو چھوڑ دیا تو زینب کی دلجوئی نکاح کرنے ہی سے ہو سکے گی۔ لیکن منافقین کی بد گوئی کا بھی اندیشہ تھا کہ اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی کو اپنے حرم میں رکھ لیا ہے یہ تھی وہ بات جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دل میں چھپائے ہوئے تھے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں سے کوئی چیز چھپانے والے ہوتے تو یہ آیت ضرور چھپاتے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:440۔(177))
2۔ اگرچہ دلوں کے خیالات پر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کے لحاظ سے دل میں ایسا خیال آنا بھی آپ کے شایان شان نہ تھا اس لیے ایسے خیال پر بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کردیا کہ میں سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ کے نکاح میں دینے والا ہوں تاکہ جاہلیت کی رسم بد کا خاتمہ کیا جائے کہ منہ بولے بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے چنانچہ جب حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طلاق دے دی تو عدت گزر جانے کے ایجاب و قبول کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بطور اعزاز کہا کرتی تھیں کہ دوسری بیویوں کی شادی تو ان کے سر پرستوں نے کی تھی لیکن میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7420)
3۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عدت پوری ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ جاؤ زینب سے میرا ذکر کرو۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تعمیل حکم کے لیے جب میں ان کے پاس آیا تو وہ اپنے آٹے کا خمیر پکا رہی تھیں میں ان کی عظمت شان کی وجہ سے انھیں نظر بھر کر نہ دیکھ سکا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یاد کیا تھا۔ پھر میں نے ان سے کہا: زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے وہ آپ کو یاد کرتے ہیں انھوں نے جواب دیا میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتی جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ (استخارہ) نہ کر لوں پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوئیں۔ ادھر قرآن اترا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کےبغیر ان کے پاس چلے گئے۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث:3502(1428)) بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہ حکم تھا کہ متبنی (منہ بولا بیٹا)اصل بیٹے کا مقام نہیں رکھتا کہ اس کی مطلقہ بیوی حرام ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اس غلط رسم کو ختم کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا گیا۔