تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج، عرش کے نیچے سجدہ کرنے کےبعد اللہ تعالیٰ سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے، پھر مشرق سے طلوع ہوتا ہے، قریب ہے کہ اسے مشرق سے طلوع ہونے کی اجازت نہ ملے اور اسے کہا جائے کہ تو واپس لوٹ جا، پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3199)
2۔ مستقر کے دو معنی ہیں: مستقر زمانی، یعنی وقت قرار، مستقر مکانی، یعنی جائے قرار۔ بہتر یہ ہے کہ یہاں مستقر زمانی مراد لیا جائے، یعنی وہ وقت جب آفتاب مقررہ مدت پوری کرکے اپنی حرکت ختم کر دے گا۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ آفتاب اپنے مدار میں ایسے محکم اور مضبوط نظام کے ساتھ حرکت کر رہا ہے جس میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ ہزاروں سال اس کی حرکت پر گزر چکے ہیں، پھر یہ حرکت دائمی نہیں بلکہ اس کے لیے ایک خاص مستقر (وقت مقرر) ہے جہاں پہنچ کر یہ حرکت بند اور ختم ہو جائے گی اور وہ قیامت کا دن ہے۔ اس معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے، ارشاد باری تعا لیٰ ہے: ’’ان میں سے ہر ایک (چاند اور سورج) مقررہ وقت تک چلتا رہے گا۔‘‘ (الرعد 13:2) اس مقام پر اجل مسمی کے الفاظ ہیں جس کے معنی میعاد معین کے ہیں، لہذا اس کے معنی یہ ہیں کہ سورج اور چاند دونوں کی حرکت دائمی نہیں، ان کی حرکت کا ایک وقت مقرر ہے، وہاں پہنچ کر یہ حرکت ختم ہوجائے گی۔ اس پر تقریباً اہل علم کا اتفاق ہے کہ زمین کردی (گیند نما) ہے اور اللہ کا عرش سب طرف سے اس زمین کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے تو اس سے اللہ کے عرش کا کروی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے سورج باعتبار اختلاف آفاق ہر آن کہیں نہ کہیں طلوع اور غروب ہو رہا ہے، گویا وہ ہروقت عرش کے تلے سجدے میں ہے اور پرورد گار سے، آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ قیامت کے قریب اسے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائےگی اور حکم ہوگا تو جدھر سے آیا ہے ادھر لوٹ جا، پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا اور قیامت آجائے گی۔
3۔ یاد رہے کہ سورج کی سجدہ کرنے سے مراد اس کا انقیاد وخضوع ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہے، یعنی اس کی اجازت اور اذن سے حرکت کرتاہے، اس سجدے اور اجازت کے لیے اسے کسی وقفے یا سکون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مدار میں حرکت کے دوران ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ بھی کرتا ہے اور آگے چلنے کی اجازت بھی مانگتا ہے اور یہ سلسلہ قرب قیامت تک یونہی چلتا رہے گا۔
4۔ بہرحال آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انقلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لیے موزوں سمجھ کر یہ تلقین فرمائی کہ آفتاب کو خود مختار اور اپنی مرضی سے حرکت کرنے والا خیال نہ کرو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کی مشیت کے تابع ہے۔ اس کاہر طلوع وغروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے۔ اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو سجدہ قراردیا گیا ہے کیونکہ ہر چیز کا سجدہ اس کے حال کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی تصریح کی ہے۔ اس لیے آفتاب کے سجدہ کرنے کے یہ معنی سمجھنا کے وہ انسان کے سجدے کی طرح زمین پر پیشانی رکھنے سے ہی ہوگاصحیح نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک سوال وجواب کےذریعے سے اس حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ واللہ اعلم۔