تشریح:
1۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ حالت طہر یا حالت حمل میں طلاق دے۔ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3659(1471)) دوران حیض میں اگر بیوی کو طلاق دی جائے تو وہ شمار ہوگی یا نہیں، اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس طرح کی طلاق شمار کی جائےگی۔
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے: (باب إذا طُلِّقَتِ الحائضُ تُعْتَدُّ بذلك الطلاق) جب حائضہ عورت کو طلاق دی جائے تو وہ اس طلاق کی وجہ سے عدت گزارے گی۔‘‘ (صحیح البخاري، الطلاق، باب: 2) اس قسم کی طلاق کو شمار کرنے کے متعلق کچھ آثار و قرائن حسب ذیل ہیں: ©۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رجوع کا حکم دیا اور رجوع ہمیشہ طلاق کے بعد ہوتا ہے۔ ©۔ اس حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے جو طلاق دی ہے وہ ایک ہے۔‘‘ (سنن الدارقطني: 9/4) ©۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ طلاق جو اس نے دی ہے شمار کی جائے گی۔‘‘ (السنن الکبریٰ للبیهقي:236/7) ©۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق مجھ پر شمار کی گئی۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5253) ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: جو آپ نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دی تھی وہ شمار کی گئی؟ انھوں نے جواب دیا میں اسے شمار کیوں نہ کرتا اگرچہ میں نے عجز اور حماقت کا ثبوت دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3666(1471)) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے مختلف طرق ذکرکرنے کے بعد اس بات کو ثابت کیا ہے کہ دوران حیض میں دی گئی طلاق کوشمار کیا جائے گا۔ (إرواء الغلیل: 133/7) اس موضوع پر ہمارے فتاویٰ ’’فتاویٰ اصحاب الحدیث‘‘ کا مطالعہ کریں۔