قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ، وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ وَاحِدُهَا: ذَاتُ حَمْلٍ "

4910. وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى وَكَانَ أَصْحَابُهُ يُعَظِّمُونَهُ فَذَكَرُوا لَهُ فَذَكَرَ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ فَحَدَّثْتُ بِحَدِيثِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ فَضَمَّزَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِهِ قَالَ مُحَمَّدٌ فَفَطِنْتُ لَهُ فَقُلْتُ إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ فَاسْتَحْيَا وَقَالَ لَكِنْ عَمُّهُ لَمْ يَقُلْ ذَاكَ فَلَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ فَسَأَلْتُهُ فَذَهَبَ يُحَدِّثُنِي حَدِيثَ سُبَيْعَةَ فَقُلْتُ هَلْ سَمِعْتَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِيهَا شَيْئًا فَقَالَ كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ عَلَيْهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور «أولات الأحمال» سے مراد «ذات حمل» ہے جس کے معنی حمل والی عورت ہے۔

4910.

حضرت محمد بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا، میں ایک ایسی مجلس میں حاضر تھا جہاں حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ بھی تھے۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ انہوں نے حاملہ کی عدت وفات أبعد الأجلین (طویل تر) بیان کی تو میں نے وہاں سبیعہ بنت حارث‬ ؓ ک‬ی حدیث عبداللہ بن عتبہ کے حوالے سے بیان کر دی۔ ان کے شاگردوں میں سے کسی نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ میں بات سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ ابھی کوفہ میں بقید حیات ہیں۔ اگر میں ان کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرتا ہوں تو بڑی جرءت کی بات ہو گی۔ اس پر مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب شرمندہ ہو گئے۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہنے لگے: لیکن ان کے چچا (عبداللہ بن مسعود) نے تو یہ بات نہیں کہی۔ پھر میں ابو عطیہ مالک بن عامر سے ملا اور ان سے میں نے یہی مسئلہ پوچھا تو وہ بھی سبیعہ اسلمیہ والی حدیث بیان کرنے لگے۔ میں نے ان سے کہا: آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اس سلسلے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے فرمایا: تم اس پر سختی کرنا چاہتے ہو اور اسے رخصت و سہولت دینے کے لیے تیار نہیں ہو؟ حالانکہ چھوٹی سورہ نساء (سورہ طلاق) بڑی سورہ نساء (سورہ بقرہ) کے بعد نازل ہوئی ہے۔ (اس میں ہے کہ) ’’اور حمل والی خواتین کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہو جانا ہے۔‘‘