تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن وسنت ایک ہی وحی اورایک ہی زبان میں ہیں۔ یہ لغت قریش کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام زبان میں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دیہاتی کو عربی زبان میں وہی جواب دیا جو بذریعہ وحی آپ پر نازل ہوا تھا اور وہ جواب قطعی طور پر قریش کے محاورے کے مطابق نہ تھا کیونکہ وسائل قریشی نہیں بلکہ عام دیہاتی تھا جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ ہر رسول کو قومی زبان دے کر مبعوث فرماتا ہے۔‘‘ (إبراهیم: 4/14)
2۔ اس سے مراد لغت قریش نہیں بلکہ تمام اہل عرب کی زبان ہے کیونکہ آپ صرف قریش ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام اہل عرب کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (فتح الباري:14/9)