تشریح:
1۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچپن ہی میں محکم سورتوں کو یاد کرلیا تھا، اس لیے معلوم ہوا کہ بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینا جائز ہے بلکہ اس اعتبار سے بہتر ہے کہ بچوں کو شروع ہی سے مانوس کیا جائے تا کہ قرآن مجید کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس جائے، پھر بچپن میں یاد کیا ہوا قرآن پتھر پر لکیر کی طرح ہوتا ہے، ہمارا تجربہ ہے کہ بچپن میں یاد کیا ہوا قرآن بھولتا نہیں ہے۔
2۔ اس حدیث میں محکم سے مراد وہ سورتیں ہیں جو منسوخ نہیں ہوئیں۔ اس مقام پر محکم، متشابہ کے مقابل نہیں ہے اور مفصل کی سورتیں سورہ حجرات سے آخر قرآن تک ہیں۔
3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمانا کہ میں دس برس کا تھا، یہ حفظ کے اعتبار سے ہے، دراصل عبارت یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو میں نے محکم سورتیں دس سال کی عمر میں یاد کر رکھی تھیں۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر دس برس سے زیادہ تھی۔ (فتح الباري: 106/9)