تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ وقتی طور پر اگر کوئی نادار یا مفلس ہے تو یہ ناداری نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور ایک نادار و مفلس شخص کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے بدلے میں کر دیا تھا، اگر ناداری و مفلسی رکاوٹ کا باعث ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نکاح نہ کرتے۔
(2) تنگدست آدمی نکاح کر سکتا ہے۔ نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تنگدستی دور کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس وعدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مال دار غنی ہو جائے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا۔ کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلے میں معاون بن جاتی ہے، کبھی بیوی کے کنبے والے اس سلسلے میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں، کبھی مرد کے لیے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں جس کا اسے پہلے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔ بہر حال مفلسی اور ناداری کو نکاح کے لیے رکاوٹ خیال نہیں کرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے ہر، لہٰذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وقتی طور پر تنگ دستی کو نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کے بعد رزق کے دروازے اس کے لیے کھول دے۔ (فتح الباري: 164/9)