تشریح:
(1) اس روایت کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک چیزوں کو بیان کیا ہے جنھیں ہم تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نسب کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں اور سسرال کی وجہ سے بھی سات عورتیں حرام ہیں، لیکن آیت کریمہ میں سات نسبی عورتوں کا ذکر ہے، مثلاً: ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی لیکن سسرال کی طرف سے سات عورتوں کا ذکر نہیں، البتہ رضاعت کو سسرال سے تعبیر کریں تو سات عورتیں حسب ذیل ہیں: رضاعی ماں، رضاعی بہن، ساس، ربیبہ، بہو، سالی اور شادی شدہ عورت۔ ان محرمات میں سات نسبی ہیں اور سات سببی، جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
(2) آیت کریمہ میں بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو نکاح میں رکھنا حرام ہے لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان دو عورتوں کو عقدِ نکاح میں جمع کیا جو ایک دوسری کے چچا کی بیٹی تھی۔ اس مراد محمد بن علی کی بیٹی اور عمر بن علی کی بیٹیاں ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسری کےچچا کی بیٹی ہے۔ امام مالک اسے مکروہ خیال کرتے ہیں حرام قرار نہیں دیتے۔ حضرت جابر بن زید نے مکروہ کی علت قطع رحمی بیان کی ہے۔ بہرحال ایسا کرنا حرام نہیں ہے۔
(3) اگر کسی نے سالی سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی جیسا کہ جمہور ائمہ کا موقف ہے کیونکہ زنا حرام ہے اس کا اثر حلال چیز پر نہیں پڑتا، پھر شریعت میں نکاح کا اطلاق عقد پر ہوتا ہے محض وطی پر نہیں ہوتا، لیکن امام ثوری اور اہل کوفہ کا موقف ہے کہ سالی سے زنا کرنا بیوی کے حرام ہونے کا باعث ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کو محل نظر قرار دیا ہے۔