تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت احرام حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا اور شب زفاف کے وقت آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد تھے اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کی وفات مقام سرف میں ہوئی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4258) ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ نکاح عمرۃ القضاء کے موقع پر ہوا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4259) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اس سلسلے میں منع کی کوئی حدیث ذکر نہیں کی صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پر اکتفا کیا ہے جو جواز کے لیے واضح ہے۔ (فتح الباري: 207/9)
(2) ہمارے رجحان کے مطابق احرام والا آدمی نہ تو خود نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے شخص ہی کا نکاح کرا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’احرام والا آدمی خود اپنا نکاح کرے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے اور نہ پیغام نکاح ہی بھیجے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3449 (1409)) خود صاحب واقعہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف میں حلال تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1843) حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو ان دونوں کے درمیان قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے، شب زفاف کے وقت بھی حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔ (جامع الترمذي، الحج، حدیث: 841) ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کسی وجہ سے وہم ہو گیا ہو جیسا کہ حضرت سعید بن مسیّب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے حالت احرام میں شادی کی تھی۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1845) کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں، اس لیے وہ ان کا حال زیادہ جانتے تھے لیکن یزید بن اصم کی بھی خالہ تھیں، انھوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح بحالت حلال کیا تھا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3453 (1411))
(3) ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک تقلید ہدی سے آدمی محرم بن جاتا ہو، جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی قربانیوں کو ہار پہنا دیے ہیں تو اس سے قیاس کر لیا کہ آپ محرم ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نے احرام نہیں باندھا تھا، بہر حال اہل حدیث حضرات کا موقف ہے کہ احرام والا آدمی نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے اور نہ کسی کو پیغام نکاح ہی بھیجے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک مرد اور عورت کو الگ الگ کر دیا تھا جنھوں نے احرام کی حالت میں نکاح کیا تھا۔ (فتح الباري: 208/9)