تشریح:
(1) ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا عمرو بن اہتم تھا۔یہ دونوں بنو تمیم سے قبیلے سےتعلق رکھتے تھے۔ وہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ آئے اور ان کا خطبہ کمال فصاحت و بلاغت پر مشتمل تھا۔ (عمدة القاري: 98/14) یہ دونوں حضرات اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاجت کے وقت خطبہ پڑھنا عرب کے ہاں ایک قدیم رسم ہے تاکہ لوگوں کے دل مائل ہوں، غالباً اس لیے عقد نکاح کے وقت خطبہ خطبہ پڑھا جاتا ہے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اشارہ فرمایا ہے کہ خطبۂ نکاح بھی صاف صاف اور متوسط ہونا چاہیے۔ اس میں تکلف اور بناوٹ وغیرہ نہ ہو۔ اس سے مقصود کسی باطل کو ثابت کرنا نہ ہوجیسا کہ قوت گویائی میں ماہر لوگ کرتے ہیں۔ عقد نکاح کے وقت خطبے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کے دل مانوس ہوں اور ان میں نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں۔ ایسے مواقع پر اچھا کلام باعث مسرت اور اثر انگیز ہوتا ہے۔ اس میں نکاح کی اہمیت و افادیت اور معاشرتی زندگی کے اصول و ضوابط بیان کیے جائیں۔ خطبۂ نکاح میں جن آیات قرآنیہ کا انتخاب کیا جاتا ہے ان میں یہی معاشرتی اصول بیان ہوئے ہیں۔ ہم ایسے موقع پر ان اصولوں کی خوب وضاحت کرتے ہیں۔ وہ اصول حسب ذیل ہیں: ٭ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (آل عمران: 102) ٭ صلہ رحمی کی عادت اختیار کی جائے۔ (النساء: 1) ٭قول و گفتار میں دوغلہ پن نہ ہو بلکہ وہ قول سدید پر مشتمل ہو۔ (الأحزاب: 70) ٭کتب حدیث میں یہ خطبہ "خطبة الحاجة'' کے نام سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1105)
(3) نکاح کے وقت خطبہ ضرروری نہیں کہ اس کے بغیر نکاح نہ ہوتا ہو بلکہ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ والله اعلم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض اہل ظاہر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے ہاں نکاح کے لیے خطبہ شرط ہے اور اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا لیکن یہ قول شاذ اور خلاف عقل و نقل ہے۔ (فتح الباري: 253/9)